کیا ایک ایسا شخص جو مستقل بیماری کی وجہ سے روزے نہ رکھ سکے، صرف فدیہ دینے سے بری الذمہ ہو جائے گا؟

Answer by Shuja Mushtaq

ایسا شخص جو کسی دائمی بیماری کی وجہ سے روزہ رکھنے پر قادر نہ ہو اور آئندہ بھی صحت یاب ہونے کی امید نہ ہو، وہ روزوں کے بدلے فدیہ دے سکتا ہے اور اس پر کوئی گناہ نہیں ہوگا۔ اس مسئلے پر تمام مکاتبِ فکر کے علماء کا عمومی اتفاق ہے، کیونکہ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے: "وَعَلَى ٱلَّذِينَ يُطِيقُونَهُۥ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ" (البقرہ: 184) یعنی جو لوگ روزہ رکھنے کی طاقت نہیں رکھتے، ان پر ایک مسکین کو کھانا کھلانے کا فدیہ ہے۔ اس آیت کی تفسیر میں جمہور مفسرین اور فقہاء نے لکھا ہے کہ وہ لوگ جو مستقل بیمار ہیں اور روزہ رکھنے سے عاجز ہیں، وہ ہر روزے کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلانے کا حکم رکھتے ہیں۔ نبی کریم ﷺ کے زمانے میں بھی ایسے صحابہ موجود تھے جنہوں نے بیماری کی وجہ سے فدیہ ادا کیا، اور رسول اللہ ﷺ نے اس کی اجازت دی۔ فقہائے کرام نے وضاحت کی ہے کہ اگر کوئی شخص وقتی بیماری میں مبتلا ہو، جس سے صحت یابی ممکن ہو، تو اسے روزے کی قضا کرنا ہوگی اور فدیہ کافی نہیں ہوگا، لیکن مستقل بیماری کی صورت میں فدیہ دینا کافی ہوگا۔ چاروں مکاتبِ فکر یعنی حنفیہ، شافعیہ، مالکیہ اور حنبلیہ کے علماء اس پر متفق ہیں کہ اگر کوئی شخص ایسا بیمار ہو جو آئندہ صحت یاب ہونے کی امید نہ رکھتا ہو تو وہ روزے نہ رکھنے کا گناہ گار نہیں ہوگا اور فدیہ دینے سے بری الذمہ ہو جائے گا۔ فدیہ ایک مسکین کو دو وقت کا کھانا کھلانے یا اس کی قیمت ادا کرنے کی صورت میں دیا جا سکتا ہے، اور اگر کوئی شخص استطاعت کے باوجود فدیہ نہ دے تو اس پر لازم ہوگا کہ جب بھی استطاعت ہو، وہ فدیہ ادا کرے۔

واللہ اعلم