کیا ہر روز نیت کرنا ضروری ہے یا ماہ رمضان کے آغاز میں ایک نیت کافی ہے؟

Answer by Shuja Mushtaq

نیت کا مطلب دل میں کسی کام کا ارادہ کرنا ہے، اور فقہاء اس بات پر متفق ہیں کہ روزے کے درست ہونے کے لیے نیت ضروری ہے، کیونکہ نبی اکرم ﷺ کا فرمان ہے: "إنما الأعمال بالنيات، وإنما لكل امرئ ما نوى" (صحیح بخاری: 1، صحیح مسلم: 1907)، یعنی اعمال کا دار و مدار نیت پر ہے، اور ہر شخص کے لیے وہی کچھ ہے جس کی اس نے نیت کی۔

حنفی، شافعی اور حنبلی فقہاء کے نزدیک رمضان کے ہر روزے کے لیے الگ نیت کرنا ضروری ہے، کیونکہ ہر دن کا روزہ مستقل عبادت شمار ہوتا ہے، جو پچھلے روزے سے جدا ہے۔ ان کے دلائل میں قرآن مجید کی یہ آیت شامل ہے: "فمن شهد منكم الشهر فليصمه" (البقرہ: 185)، یعنی جو بھی تم میں سے اس مہینے کو پائے، وہ اس کے روزے رکھے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہر دن کا روزہ ایک الگ عبادت ہے جس کے لیے نیت ضروری ہے۔ اسی طرح نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے: "من لم يبيت الصيام قبل الفجر فلا صيام له" (سنن نسائی: 2332، سنن ابو داؤد: 2454، ابن ماجہ: 1700، مسند احمد: 9336)، یعنی جس نے فجر سے پہلے روزے کی نیت نہ کی، اس کا روزہ نہیں۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہر دن کے روزے کے لیے رات کو نیت کرنا ضروری ہے، کیونکہ ہر روزہ ایک نیا عمل ہے۔

مالکی فقہ میں یہ رائے پائی جاتی ہے کہ اگر کوئی شخص رمضان کے آغاز میں نیت کر لے کہ وہ پورے مہینے کے روزے رکھے گا، تو یہی نیت پورے مہینے کے لیے کافی ہوگی، بشرطیکہ کوئی ایسا عذر پیش نہ آئے جو روزوں کو منقطع کر دے، جیسے بیماری یا سفر۔ اگر کوئی عذر پیش آ جائے تو دوبارہ نیت کرنا ضروری ہوگا۔ مالکیہ اس بات پر استدلال کرتے ہیں کہ رمضان ایک مسلسل عبادت ہے، اور جب ایک عبادت مستقل طور پر جاری رہتی ہے تو ایک نیت ہی کافی ہوتی ہے، جیسے نماز میں شروع میں نیت کرنا کافی ہوتا ہے اور ہر رکعت کے لیے الگ نیت ضروری نہیں ہوتی۔

اہل حدیث اور معاصرين فقهاء کی رائے عمومی طور پر جمہور فقہاء کے مطابق ہے کہ ہر روز نیت کرنا بہتر ہے، کیونکہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: "إنما الأعمال بالنيات" (بخاری و مسلم)، یعنی تمام اعمال کا دار و مدار نیت پر ہے۔ تاہم، اگر کوئی رمضان کے آغاز میں ہی پورے مہینے کی نیت کر لے اور ہر روز سحری کھانے یا روزے کا ارادہ کرنے کی عادت ہو، تو اس کا روزہ درست ہوگا۔

تمام مکاتب فکر میں اس بات پر اتفاق پایا جاتا ہے کہ نیت دل کے ارادے کا نام ہے اور زبان سے کہنا ضروری نہیں، البتہ احناف اور جمہور فقہاء کے مطابق ہر روز نیت کرنا ضروری ہے، جبکہ مالکیہ کے مطابق ایک نیت پورے مہینے کے لیے کافی ہے جب تک کہ کوئی عذر پیش نہ آئے۔ عملی طور پر، ہر روز نیت کر لینا زیادہ محتاط اور مستحب عمل ہے جو روزے کی قبولیت کے لیے بہتر ہے، کیونکہ اسلامی فقہ کا ایک بنیادی اصول "لا ضرر ولا ضرار" یعنی "نہ خود کو نقصان پہنچاؤ اور نہ دوسروں کو نقصان پہنچاؤ" اس معاملے میں بھی لاگو ہوتا ہے۔

واللہ اعلم