
وہ چہرہ جو زمین کو جنت بنا گیا
شجاع مشتاق
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اندھیری رات تھی۔ صحرا کی خامشی جیسے وقت کی سانسوں کو روک چکی ہو۔ آسمان پر بادلوں کی چادر تن گئی تھی اور مدینہ کی گلیاں جیسے کسی ان دیکھے انتظار میں ڈوبی تھیں۔ ایک چراغ بھی نہ جلتا تھا، مگر دلوں میں امید کا دیا ٹمٹما رہا تھا۔ ایسے میں، ایک کمرہ ہے جو دنیا کے ہر کمرے سے مختلف ہے—سادہ، پر سکون، مگر نور سے لبریز۔ اس کمرے میں ایک ہستی اپنے آخری لمحات میں امت کی فکر لیے، اپنی آنکھوں سے آنسوؤں کا سمندر بہا رہی ہے۔ جن ہونٹوں نے خدا کا پیغام سنایا، وہ اب مدھم دعاؤں کی سرگوشی میں مصروف ہیں۔ جن ہاتھوں نے یتیموں کے سر پر شفقت رکھی، وہ اب لرز رہے ہیں۔ اور جن قدموں نے وحی کی راہوں کو روند ڈالا، وہ اب رکنے کو ہیں۔
یہ ہستی وہی ہے جس کی ذات میں محبت کا وہ دریا موجزن ہے جو صدیوں سے بہتا آ رہا ہے، اور قیامت تک بہتا رہے گا۔ یہ محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی ہے—جن کی سیرت ایک ناول نہیں، ایک درد بھری محبت کی داستان ہے۔ ایسی داستان جسے اگر دل سے پڑھا جائے تو ہر لفظ سے ایک آہ نکلتی ہے، اور ہر سطر ایک نئی زندگی بخشتی ہے۔
آپ کی پیدائش ایک ایسے دور میں ہوئی جب مکہ کی فضائیں بتوں کی گونج سے بھری تھیں، جب لڑکیاں زندہ دفن کی جاتی تھیں، جب حرمتِ انسانیت مٹی میں ملی ہوئی تھی۔ مگر وہ لمحہ، جب آمنہ نے اپنے آنگن میں وہ بچہ دیکھا، جس کے لیے کائنات تخلیق کی گئی، وہ لمحہ زمین کے لیے عید کا دن بن گیا۔ اس بچے کی آنکھوں میں وحی کی روشنی چھپی تھی، اس کے سینے میں خدا کی محبت کا خزانہ تھا، اور اس کے وجود میں ایسی سچائی تھی جو جھوٹ کے پہاڑوں کو ریزہ ریزہ کرنے والی تھی۔
وقت گزرتا گیا، اور وہ بچہ یتیم ہو گیا۔ ہاں، آمنہ کی آغوش کے بعد عبدالمطلب کے بازوؤں اور پھر ابوطالب کے سائے تک، اس کے سائے مسلسل کٹتے گئے۔ مگر ایک سایہ کبھی نہ چھٹا—خالق کا سایہ، جو ہر لمحہ اس کے ساتھ رہا۔ جسے مکہ والوں نے امین کہا، وہی جب حق کی صدا بلند کرتا ہے تو وہی لوگ پتھر مارتے ہیں۔ جسے سب سے زیادہ سچا سمجھا گیا، اسی کی بات کو سب سے زیادہ جھٹلایا گیا۔ مگر اُس کے صبر کا عالم دیکھیے کہ طائف کی گلیوں میں جب خون اس کے نعلین میں جم گیا، تب بھی اس نے بددعا نہ کی، بلکہ دعا کی: “یا اللہ! ان کو ہدایت دے، یہ نہیں جانتے۔”
کیا اس سے بڑھ کر محبت ممکن ہے؟ وہ جو دشمنوں کے لیے بھی آہوں میں دعا کرے، وہ جو ہر رات اپنے رب کے حضور سجدہ ریز ہو کر امت کے لیے گریہ کرے۔ وہ جو بچوں کو گود میں بٹھا کر ان کی شرارتوں پر مسکرائے، اور وہ بھی جو فاقے سے ہو کر بھی کسی کا پیٹ بھر دے—اس کی سیرت محض قصہ نہیں، وہ ایک عاشق کا جذبہ ہے، ایک نبی کا درد ہے، ایک انسان کی بلندی ہے۔
جب مدینہ کی سرزمین پر قدم رکھتے ہیں، تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے زمین نے سجدہ کیا ہو۔ وہاں کے در و دیوار نے خود کو سنوار لیا ہو۔ انصار کی آنکھیں، محبت سے لبریز، استقبال کرتی ہیں، اور مہاجرین کے دلوں میں قربانی کی چمک ہے۔ وہاں مسجدِ نبوی کی پہلی اینٹ رکھی جاتی ہے، اور پھر وہی جگہ علم، عبادت اور انقلاب کا مرکز بن جاتی ہے۔
ہر لمحہ، ہر سانس، ہر قدم محبت کی گواہی دیتا ہے۔ جب بدر کی گھاٹیوں میں قریش کی تلواریں چمک رہی تھیں، تب آپ کی آنکھیں آسمان کی طرف اٹھیں: “یا اللہ! اگر یہ چھوٹا سا گروہ ہلاک ہو گیا، تو پھر تیرا نام لینے والا کوئی نہ بچے گا۔” یہ صرف ایک نبی کی فریاد نہیں، یہ ایک عاشق کی فریاد ہے، جو اپنی امت کے لیے جیتا ہے، لڑتا ہے، روتا ہے، اور آخر میں اپنی جان دے کر بھی امت کے لیے دعائیں کرتا ہے۔
فتح مکہ کا منظر جب آتا ہے، تو منتقم مزاجی نہیں، بلکہ عفو و درگزر کا عروج نظر آتا ہے۔ جنہوں نے گالیاں دی تھیں، ان کے لیے معافی ہے۔ جنہوں نے قتل کیے تھے، ان کے لیے بخشش ہے۔ یہ وہ دل ہے جس میں دشمنوں کے لیے بھی محبت کا گنج ہے۔ اور یہی وہ اعلیٰ ترین درجہ ہے محبت کا، جو صرف محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں ممکن ہوا۔
اور پھر وہ لمحہ بھی آیا، جب آپ اس دنیا سے رخصت ہو رہے تھے۔ آنکھیں بند ہو رہی تھیں، لیکن ہونٹوں پر امت کا ذکر تھا۔ “میری امت، میری امت”۔ اس وقت کے صحابہ کا رونا، مدینہ کی ہواؤں کا تھم جانا، اور جبریل کا خاموشی سے آسمان کی طرف لوٹ جانا—سب گویا اس کائناتی حادثے کا اعلان تھا کہ وہ چہرہ جس نے زمین کو جنت بنا دیا، اب چاند بن کر آسمان کی طرف لوٹ چکا ہے۔
یہ سیرت ایک کتاب نہیں، ایک عاشق کی سوانح عمری ہے۔ ایک وہ عاشق جو اپنے رب کا عاشق ہے، اور اپنے رب کی مخلوق سے ایسی محبت کرتا ہے کہ اس جیسی محبت کا تصور بھی محال ہے۔ جو پڑھنے والے کے دل میں ایسی حرارت پیدا کر دے کہ وہ خود کو اس دربار میں غلام کی حیثیت سے دیکھے، اور کہے: “یا رسول اللہ! ہم آپ کو نہیں دیکھا، مگر دل آپ پر قربان ہے۔ ہم نے آپ کی آواز نہیں سنی، مگر روح آپ کی نعت پڑھتی ہے۔ ہم نے آپ کی گلیوں کی خاک نہیں چھوئی، مگر آنکھیں اسی خاک کو ترستی ہیں۔”
ایسی سیرت کو صرف پڑھا نہیں جاتا، اسے جیا جاتا ہے، رویا جاتا ہے، اور سب سے بڑھ کر، اس سے محبت کی جاتی ہے۔