تو ادھر ادھر کی نہ بات کر، یہ بتا کہ قافلہ کیوں لٹا

تو ادھر ادھر کی نہ بات کر، یہ بتا کہ قافلہ کیوں لٹا

Last Updated: 1 hour ago

شجاع مشتاق

 

تو ادھر ادھر کی نہ بات کر، یہ بتا کہ قافلہ کیوں لٹا۔ یہ سوال محض ایک شعر کا ٹکڑا نہیں بلکہ صدیوں سے ہماری امت کے دل میں اٹھنے والی وہ تڑپ ہے جس نے دانشوروں کو لکھنے پر مجبور کیا، خطباء کو بولنے پر آمادہ کیا اور ہر صاحبِ ایمان کے دل میں خلش پیدا کی۔ ہم جو کبھی دنیا کی امامت کرتے تھے، آج دوسروں کے محتاج ہیں۔ ہم جن کے ذکر سے زمانہ لرز اٹھتا تھا، آج ہماری کوئی صدا عالمی ایوانوں میں نہیں سنی جاتی۔ آخر ایسا کیوں ہوا؟ کون سی غلطی ہم سے سرزد ہوئی کہ ہماری عظمت کا چراغ بجھ گیا؟

تاریخ کے صفحات پلٹیں تو ایک ایسا منظر سامنے آتا ہے جو آنکھوں کو خیرہ کرتا ہے۔ عرب کے ریگزاروں میں اٹھنے والی یہ قوم جب قرآن کے پرچم تلے جمع ہوئی تو دنیا کی تاریخ بدل گئی۔ خلافتِ راشدہ کا وہ دور کہ جب بیت المال کے دروازے سب کے لیے کھلے تھے، جب خلیفہ وقت اپنی تنخواہ کم کر دیتا تھا تاکہ بیت المال پر بوجھ نہ بڑھے، جب ایک عام آدمی خلیفہ سے سوال کر سکتا تھا کہ یہ کپڑا کہاں سے آیا۔ یہ وہی امت تھی جس نے انصاف، علم اور بھائی چارے کی بنیاد پر اپنی سلطنت کو وسعت دی۔

لیکن سوال یہی ہے کہ اس شان و شوکت کے بعد زوال کیوں آیا۔ پہلی بڑی وجہ داخلی اختلافات تھے۔ خلافتِ راشدہ کے بعد امت ایک دوسرے کے مقابل کھڑی ہو گئی۔ اقتدار کی رسہ کشی اور سیاسی اختلافات نے بھائی کو بھائی کے سامنے کھڑا کر دیا۔ دشمن باہر سے حملہ آور نہیں ہوا تھا، ہم نے اندر سے اپنی طاقت کو کمزور کیا۔ یہی وہ دراڑ تھی جس سے غیر طاقتیں اندر داخل ہوئیں۔

اندلس کی تاریخ پڑھ لیں۔ وہی اندلس جہاں مسجد قرطبہ کے میناروں سے اذان کی صدا گونجتی تھی، جہاں یونیورسٹیوں سے علم کا نور پھیلتا تھا، وہی اندلس رفتہ رفتہ عیش و عشرت اور جاہ و جلال کی نذر ہو گیا۔ وہاں کے حکمران آپس کی لڑائیوں میں الجھ گئے، فرقوں اور گروہوں کی بنیاد پر ایک دوسرے کو نیچا دکھانے لگے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ دشمن نے ایک ایک کر کے قلعے فتح کیے اور آخر وہ دن آیا جب مسلمانوں کو اسپین سے نکال دیا گیا۔ وہ عظیم سلطنت جس نے یورپ کو علم دیا، خود مٹ گئی اور پیچھے صرف آثار چھوڑ گئی۔

زوال کی دوسری بڑی وجہ علم سے دوری تھی۔ ہم نے وہی کتاب بند کر دی جو ہمیں کائنات پر غور و فکر کی دعوت دیتی تھی۔ قرآن بار بار کہتا ہے کہ دیکھو، سوچو، غور کرو، لیکن ہم نے سوچنے کے دروازے بند کر دیے۔ اجتہاد کی بجائے تقلید نے جگہ لے لی۔ وہی مسلمان جن کے کتب خانوں کی روشنی سے یورپ نے فائدہ اٹھایا، خود اپنی کتابوں کو نظر انداز کرنے لگے۔ بغداد کی لائبریریوں میں لاکھوں کتابیں تھیں مگر ہم نے انہیں سنبھالنے کے بجائے تلوار اور تخت کی جنگوں میں ضائع کر دیا۔ یورپ نے ان کتابوں کو لے کر سائنس اور فلسفے کی نئی راہیں کھولیں، اور ہم ماضی کی یادوں میں قید ہو کر رہ گئے۔

تیسری بڑی وجہ اخلاقی انحطاط تھا۔ جب حکمران عوام کی خدمت کے بجائے محلات کی زینت میں کھو گئے، جب بیت المال کو ذاتی تجوری سمجھ لیا گیا، جب عدل کی جگہ ظلم اور سفارش نے لے لی، تب قوموں کا زوال یقینی ہو گیا۔ ایک وقت تھا کہ قاضی وقت خلیفہ کے خلاف فیصلہ دیتا اور خلیفہ خاموشی سے اسے قبول کرتا۔ مگر پھر وہ وقت آیا کہ عدلیہ حکمرانوں کی غلام بن گئی۔ جہاں انصاف مر جائے وہاں قوم زندہ نہیں رہتی۔

اور پھر وہ وقت آیا جب منگولوں نے بغداد پر حملہ کیا۔ کہا جاتا ہے کہ دریائے دجلہ کا پانی کتابوں کی سیاہی سے سیاہ ہو گیا تھا۔ لاکھوں کتابیں دریا میں بہا دی گئیں۔ یہ صرف کاغذ کا نقصان نہ تھا، یہ امت کی فکری موت تھی۔ لیکن اس حادثے کے بعد بھی ہم نے سبق نہ سیکھا۔ ہم نے دشمن کو الزام دیا مگر اپنی کوتاہی پر نظر نہ ڈالی۔

زوال کا ایک اور بڑا سبب یہ بھی تھا کہ ہم نے اپنی صفوں میں اختلافات کو بڑھنے دیا۔ مسلک، زبان، نسل اور علاقے کی بنیاد پر ہم ایک دوسرے کے خلاف کھڑے ہوئے۔ قرآن نے ہمیں ایک امت بنایا تھا لیکن ہم نے خود کو ٹکڑوں میں تقسیم کر لیا۔ یورپی طاقتوں نے اس کمزوری کو خوب پہچانا۔ "تقسیم کرو اور حکومت کرو" کی پالیسی نے ہمیں چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بانٹ دیا۔ خلافت عثمانیہ کا زوال اس کی سب سے بڑی مثال ہے۔ وہ عظیم سلطنت جو تین براعظموں پر پھیلی ہوئی تھی، آہستہ آہستہ اندرونی کمزوریوں اور بیرونی سازشوں کا شکار ہو گئی۔ بالآخر پہلی جنگ عظیم کے بعد اسے ختم کر دیا گیا۔

استعماری طاقتوں نے نہ صرف ہمارے وسائل پر قبضہ کیا بلکہ ہمارے ذہنوں کو بھی غلام بنایا۔ ہمیں یہ باور کرایا گیا کہ ہم کچھ نہیں کر سکتے۔ ہماری تاریخ کو مسخ کر کے ہمیں احساسِ کمتری میں مبتلا کیا گیا۔ آج بھی یہی صورت حال ہے۔ ہم نے اپنی عظمت کو فراموش کر دیا اور دوسروں کی ثقافت اور طرزِ زندگی کو اپنے لیے معیار بنا لیا۔

لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ زوال ہمیشہ کے لیے ہے؟ ہرگز نہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی امت نے اپنے اصل کی طرف رجوع کیا ہے، وہ دوبارہ اٹھی ہے۔ صلاح الدین ایوبی نے جب بیت المقدس فتح کیا تو وہ طاقت محض تلوار کی نہیں بلکہ ایمان اور اخلاص کی تھی۔ خلافت عثمانیہ نے جب یورپ کے دروازوں پر اپنی موجودگی ظاہر کی تو یہ محض جنگی قوت نہ تھی بلکہ اتحاد اور نظم و ضبط کا نتیجہ تھا۔

آج بھی اگر ہم اس زوال سے نکلنا چاہتے ہیں تو ہمیں انہی اصولوں کی طرف لوٹنا ہوگا جو ہمارے عروج کی بنیاد تھے۔ ہمیں پھر سے علم کو اپنا ہتھیار بنانا ہوگا۔ ہمیں قرآن کے پیغام کو سمجھنا ہوگا، نہ کہ محض تلاوت کر کے ثواب کمانے تک محدود ہونا ہوگا۔ ہمیں انصاف کو دوبارہ زندہ کرنا ہوگا، خواہ وہ حکمران کے خلاف کیوں نہ ہو۔ ہمیں فرقوں اور گروہوں کی بجائے امت واحدہ کا تصور دوبارہ زندہ کرنا ہوگا۔

اگر ہم یہ کر سکے تو کوئی طاقت ہمیں دوبارہ عروج حاصل کرنے سے نہیں روک سکتی۔ لیکن اگر ہم نے اپنی غلطیوں پر پردہ ڈالتے رہے، دوسروں کو الزام دیتے رہے اور اپنی کمزوریوں کو نہ پہچانا تو زوال کا یہ سفر مزید گہرا ہوتا جائے گا۔

قاری کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ تاریخ محض قصے کہانیوں کا مجموعہ نہیں۔ تاریخ آئینہ ہے۔ جو قوم اس آئینے میں خود کو دیکھنے سے انکار کرتی ہے، وہ بار بار ٹھوکر کھاتی ہے۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے اپنی تاریخ کو یا تو افسانہ بنا لیا ہے یا پھر محض تعویذ سمجھ لیا ہے۔ حالانکہ ہمیں اس سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔

آج امت کی حالت دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ کہیں غربت ہے، کہیں ظلم ہے، کہیں جہالت ہے۔ ہمارے اپنے ممالک میں ہمارے بچے تعلیم سے محروم ہیں، ہماری بہنیں اور مائیں بنیادی سہولیات کے لیے ترس رہی ہیں، اور ہمارے نوجوان اپنی صلاحیتوں کو ضائع کر رہے ہیں۔ یہ سب ہماری کوتاہیوں کا نتیجہ ہے۔

لیکن اس تاریکی میں روشنی کی کرن بھی موجود ہے۔ آج بھی امت کے اندر ایسے لوگ موجود ہیں جو علم کو زندہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، جو اخوت اور اتحاد کی آواز بلند کر رہے ہیں، جو امت کو اس کے اصل کی طرف لوٹانے کے لیے کوشاں ہیں۔ یہ قافلہ دوبارہ چل سکتا ہے، یہ چراغ دوبارہ جل سکتے ہیں، لیکن شرط یہ ہے کہ ہم خود کو بدلنے کا عزم کریں۔

قاری محترم! یہ سوال آپ سے بھی ہے کہ قافلہ کیوں لٹا۔ اگر آپ اس سوال کا جواب صرف تاریخ میں ڈھونڈیں گے تو شاید ادھورا جواب ملے۔ اصل جواب یہ ہے کہ قافلہ اس وقت لٹتا ہے جب قافلے والے سو جاتے ہیں، جب وہ اپنی منزل بھول جاتے ہیں، جب وہ اپنے اصولوں سے غافل ہو جاتے ہیں۔ اور قافلہ اس وقت بچتا ہے جب قافلے والے جاگتے ہیں، اپنی سمت پہچانتے ہیں اور اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہیں۔

ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اس قافلے کو دوبارہ منزل کی طرف لے جائیں۔ یہ مشکل ضرور ہے مگر ناممکن نہیں۔ اگر ہم نے علم کو اپنا ساتھی بنایا، اخوت کو اپنا ہتھیار بنایا اور انصاف کو اپنی ڈھال بنایا تو وہ دن دور نہیں جب تاریخ دوبارہ کہے گی کہ مسلم امت دنیا کی رہنما ہے۔

تو ادھر ادھر کی نہ بات کر، یہ بتا کہ قافلہ کیوں لٹا۔ اور پھر یہ بھی سوچ کہ قافلہ دوبارہ کیسے اٹھے گا۔