تکبر کی شروعات: برتری کے فریب سے تباہی کی طرف

تکبر کی شروعات: برتری کے فریب سے تباہی کی طرف

Last Updated: 2 days ago

شجاع مشتاق

 

انسانی معاشرہ الفت، انکساری اور باہمی احترام سے زندہ رہتا ہے۔ علم، عقل اور فہم جب انسان کی شخصیت کا حصہ بنتے ہیں تو اس کی گفتگو میں نرمی، دل میں خاکساری، اور آنکھوں میں ادب اتر آتا ہے۔ لیکن یہ بھی ایک المیہ ہے کہ بعض اوقات یہی علم اور فہم انسان کو ایک فریب میں مبتلا کر دیتے ہیں۔ یہ فریب یہی ہوتا ہے کہ "میں باقیوں سے بہتر ہوں"، "میری بات حرفِ آخر ہے"، اور "تمہیں اندازہ نہیں کہ میں کون ہوں"۔

یہیں سے تکبر جنم لیتا ہے۔ وہ تکبر جس کا پہلا شکار شیطان بنا، جب اُس نے آدم (علیہ السلام) کو سجدہ کرنے سے انکار کیا، اور کہہ اٹھا: أنا خیر منه. "میں اُس سے بہتر ہوں"۔ یہی وہ جملہ ہے جو آج بھی علمی مجالس میں مختلف شکلوں میں گونجتا ہے۔ جب کوئی شخص اختلافِ رائے کو عزت دینے کے بجائے یہ کہتا ہے: "آپ کو اندازہ نہیں کہ میں کون ہوں"، "میری حیثیت سے آپ واقف نہیں"، یا "آپ میری علمی سطح تک نہیں پہنچ سکتے"، تو وہ غیرمحسوس طریقے سے اسی شیطانی جملے کی بازگشت دہرا رہا ہوتا ہے۔

علم اگر دل کو نرم نہ کرے تو وہ زہر بن جاتا ہے۔ ایک ایسا زہر جو محفلوں کو زہرآلود، دلوں کو دور، اور حق کو مغلوب کر دیتا ہے۔ بظاہر یہ جملے عام گفتگو کا حصہ لگتے ہیں، لیکن ان کے پیچھے ایک خطرناک سوچ چھپی ہوتی ہے—خود کو برتر، دوسروں کو کمتر سمجھنے کی سوچ۔

تکبر ہمیشہ ایک نرم آغاز سے شروع ہوتا ہے۔ انسان اپنی کامیابیوں، علم، یا معاشرتی حیثیت پر خوش ہوتا ہے، پھر آہستہ آہستہ اسے یہ لگنے لگتا ہے کہ دوسرے اُس کے برابر نہیں۔ جب کوئی اس سے اختلاف کرے یا اُس کے علم پر سوال اٹھائے، تو اُس کی زبان سے طنز اور تمسخر نکلتا ہے، اور کبھی کبھی وہ یہ بھی کہہ دیتا ہے کہ "میرے مقام کو سمجھو"۔

یاد رکھنا چاہیے کہ انسان جتنا بڑا ہوتا ہے، اتنا ہی عاجز ہوتا ہے۔ بڑے بڑے اہلِ علم اور فقہا، جب کسی مجلس میں بیٹھتے، تو گویا علم کا سمندر ہوتے، مگر مزاج میں دریا جیسی وسعت اور خاک جیسی عاجزی رکھتے۔ امام شافعیؒ سے جب کوئی اختلاف کرتا تو وہ فرماتے: "میری رائے درست ہے، مگر اس میں غلطی کا امکان ہے، اور تمہاری رائے غلط ہے، مگر اس میں درستی کا احتمال ہے۔" یہ وہی لوگ تھے جن کے قدموں کی خاک آج ہماری علمی عمارت کی بنیاد ہے۔

افسوس یہ ہے کہ آج علم کو انا کی زینت بنا دیا گیا ہے۔ علمی گفتگو اب حق کی تلاش نہیں بلکہ برتری کی جنگ بن چکی ہے۔ جب انسان یہ کہے کہ "آپ مجھے نہیں جانتے"، تو وہ گویا یہ کہہ رہا ہوتا ہے کہ "آپ اس مقام کے لائق نہیں کہ مجھ سے بات کریں"۔

تکبر صرف کسی سے اونچی آواز میں بات کرنا نہیں ہوتا، بلکہ اپنی بات کو حرفِ آخر سمجھنا بھی تکبر ہے۔ کسی کو غلطی کی اجازت نہ دینا بھی تکبر ہے۔ اختلاف کو برداشت نہ کرنا بھی تکبر ہے۔

اگر کسی مجلس میں کوئی کم علم یا طالبِ علم کچھ کہے، اور ہم اس کی بات کو رد کرنے سے پہلے اُس کی نیت، ادب اور سچائی کو دیکھیں، تو شاید ہم بہت سی علمی بدتمیزیوں سے بچ جائیں۔ لیکن اگر ہم یہ سوچیں کہ "ہمیں کون سکھا سکتا ہے"، تو سمجھ لیجیے کہ ہم نے سیکھنے کا دروازہ بند کر لیا ہے۔

یاد رکھیے، علم نرمی اور انکساری سکھاتا ہے۔ جو علم تکبر دے، وہ علم نہیں، فریب ہے۔ اور جو عالم لوگوں کو اپنے مرتبے کا احساس دلانے میں لگا ہو، وہ دراصل اپنی محرومی کو چھپا رہا ہوتا ہے۔

اللہ ہمیں علم کے ساتھ حلم، فہم کے ساتھ بردباری، اور فہم کے ساتھ خاکساری عطا فرمائے۔ تکبر کے اس فریب سے ہماری حفاظت فرمائے، جو ہمیں اپنے خالق کے سب سے بڑے دشمن کے نقشِ قدم پر لے جاتا ہے۔