
سیرتِ طیبہ ایک بحرِ ناپیدا کنار
محسن خان
سیرتِ رسول ﷺ ایک ایسا بحرِ ناپیدا کنار ہے جس پر صدیوں سے اہلِ قلم اپنی عقیدت و محبت نچھاور کرتے رہے ہیں۔ اگر قدیم و جدید تمام تصنیفی ذخائر پر نظر ڈالی جائے، تو بادی النظر میں یوں محسوس ہوتا ہے کہ مزید کسی تحریر کی حاجت باقی نہیں رہی۔ لیکن سیرت محض ایک تاریخی بیانیہ نہیں، بلکہ ایک زندہ حقیقت ہے۔ایسی حقیقت جو ہر عہد میں نئے انداز سے جلوہ گر ہوتی ہے اور جس پر جتنا غور کیا جائے، اس کے اسرار و معانی اتنے ہی زیادہ روشن ہوتے جاتے ہیں۔ یہی وہ حقیقت ہے جس کی طرف قرآنِ حکیم نے اشارہ کیا:
لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنة
یعنی رسول اللہ ﷺ کی زندگی تمہارے لیے بہترین نمونہ ہے۔
(سورة الأحزاب:٢١)
یہی وہ نکتہ ہے جو انسانی فکر کو اس حقیقت پر مائل کرتا ہے کہ سیرت کی توضیح و تعبیر محض ایک علمی مشق نہیں، بلکہ ایک روحانی تقاضا بھی ہے۔
بقول مولانا ابو الحسن ندوی رحمہ اللہ:
سیرت اپنے حسن و جمال ، اپنی موزونیت و لطافت اور اپنی اثر انگیزی و دل آویزی کے لیے کسی بڑے آدمی کی سفارش کسی حکیم کے علم و دانش اور کسی ادیب اور صاحب قلم کے انداز نگارش یا رنگینی بیان کی محتاج نہیں ، اس کے لیے زیادہ سے زیادہ ایک مصنف کو جس چیز کی ضرورت ہوتی ہے، وہ حسن بیان ، حسن ترتیب اور حسن انتخاب ہے۔"
(دیکھیے نبیِ رحمت،ص ١٤)
غرض،
ہر دور اپنے مخصوص فکری و تمدنی پسِ منظر کے ساتھ سیرتِ طیبہ کے اُن پہلوؤں کو اجاگر کرنے کا متقاضی ہوتا ہے، جو اس زمانے کے فکری سوالات اور اخلاقی خلشوں کا جواب بن سکیں۔
یہی وجہ ہے کہ سیرت پر جتنا بھی لکھا جائے، جتنا بھی غور کیا جائے، اس کی رفعت اور اس کے جمال میں اضافہ ہی ہوتا ہے۔ امام شافعیؒ فرماتے ہیں:
"من تعلم السيرة فقد تعلم الدين كله."
یعنی جس نے سیرت کو سیکھ لیا، اس نے دین کو مکمل طور پر سیکھ لیا۔
(مناقب الشافعي للبيهقي،ج٢،ص ٢٠٨ )
یہی وہ حقیقت ہے جو سیرت نگاری کو ایک دائمی علمی ضرورت بناتی ہے۔
یہی سبب ہے کہ سیرت کی تحریریں محض ماضی کی گرد میں لپٹی ہوئی یادداشتیں نہیں بلکہ ایک روشن مینار ہیں، جو ہر زمانے کے قافلۂ انسانیت کو منزل کا پتہ دیتے ہیں۔ اس لیے جتنا بھی لکھا جا چکا ہو، جتنا بھی کہا جا چکا ہو، سیرت نگاری کا دائرہ کبھی محدود نہیں ہوسکتا، کیونکہ ہر نئے قلم کی نوک سے اس بحرِ ناپیدا کنار کی ایک نئی جہت آشکار ہوتی ہے۔
ڈاکٹر محمود احمد غازی رحمہ نے بجا فرمایا ہے:
سیرت ایک لامتناہی اور متلاطم سمندر ہے۔ علم سیرت محض ایک شخصیت کی سوانح عمری نہیں ہے، بلکہ یہ ایک تہذیب ، ایک تمدن، ایک قوم ، ایک ملت اور ایک الہی پیغام کے آغاز اور ارتقاء کی ایک انتہائی اہم انتہائی دلچسپ اور انتہائی مفید داستان ہے۔ سیرت ایک ایسا دریائے متلاطم ہے جس کے درہائے نا سفتہ لامتناہی ہیں۔ ایک مغربی مستشرق نے کسی دوست نے نہیں بلکہ ایک دشمن نے ، یہ اعتراف کیا تھا کہ آنحضور ﷺ کے سیرت نگاروں کا سلسلہ لامتناہی ہے۔ لیکن اس میں جگہ پانا قابل عزت اور باعث شرف ہے۔
(دیکھیے محاضرات سیرت،ص ١٥)