
سلفِ صالحین کے باہمی علمی مکالمات کا انداز
شجاع مشتاق
سلف صالحین کا دور اسلامی تاریخ کا وہ روشن باب ہے جس میں علم، تقویٰ، حلم، برداشت اور اخلاص ایک دوسرے میں اس طرح رچے بسے تھے کہ ان کی مثال بعد کے ادوار میں بہت کم ملتی ہے۔ اس دور کے علماء اور محدثین کا علمی انداز نہایت مہذب، بردبار اور خالصتاً اللہ کی رضا کے لیے ہوتا تھا۔ ان کے درمیان اختلاف رائے ضرور ہوتا تھا، لیکن اس اختلاف کو کبھی دشمنی، ضد، ہٹ دھرمی یا تحقیر کا رنگ نہیں دیا گیا۔ بلکہ وہ اختلاف کو فکری وسعت اور تحقیق کا ذریعہ سمجھتے تھے۔ جب ہم سلف کے باہمی علمی مکالمات کا مطالعہ کرتے ہیں تو ایک منفرد تہذیبی اور فکری ماحول کا سامنا ہوتا ہے جہاں الفاظ تولے جاتے تھے، جذبات قابو میں رکھے جاتے تھے اور بات کو دلیل و ادب کے ساتھ پیش کیا جاتا تھا۔
امام مالک رحمہ اللہ کا قول ہے کہ ہر شخص کی بات لی بھی جا سکتی ہے اور رد بھی کی جا سکتی ہے سوائے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے، کیونکہ ان کی بات وحی پر مبنی ہے۔ یہ قول علمی انکساری کی اعلیٰ ترین مثال ہے۔ جب ایک جلیل القدر امام یہ کہے کہ میری بات بھی غلط ہو سکتی ہے تو اس سے سلف کے اندازِ فکر کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ یہی ان کا اسلوب تھا کہ کبھی اپنی رائے کو حرفِ آخر نہیں سمجھا۔ امام شافعی رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے کہ میری رائے درست ہے لیکن اس میں غلطی کا امکان ہے، اور مخالف کی رائے غلط ہے لیکن اس میں درستگی کا احتمال ہے۔ یہ جملہ صرف علمی بات نہیں بلکہ ایک اخلاقی اصول بھی ہے جو ہر طالب علم، محقق اور عالم کے لیے مشعلِ راہ ہے۔
سلف کا اندازِ گفتگو نرم، مہذب اور شائستہ ہوتا تھا۔ ان کے لہجے میں نہ سختی ہوتی تھی اور نہ تذلیل، بلکہ وہ ہمیشہ اپنے مخاطب کی عزت کو ملحوظ رکھتے تھے۔ علمی اختلاف کے باوجود ان کی زبان سے کبھی طعن و تشنیع کے الفاظ نہیں نکلتے تھے۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے جب کسی مسئلے کے بارے میں پوچھا جاتا اور وہ امام شافعی سے اختلاف رکھتے تھے تو وہ کبھی بھی تحقیر یا تضحیک کے انداز میں جواب نہ دیتے، بلکہ اکثر یہ کہتے کہ امام شافعی کا قول بھی معروف ہے لیکن میرے نزدیک سنت یہ ہے۔ اس انداز میں مخالف کی بات کا ذکر کرنا دراصل اس کے مقام و مرتبے کو تسلیم کرنا ہے۔
سلف صالحین کی علمی مجالس میں وقار، سکون، ترتیب اور احترام کا خاص لحاظ رکھا جاتا تھا۔ کوئی بھی شخص اپنی آواز بلند کر کے یا غصے میں بات نہ کرتا تھا۔ امام مالک جب حدیث کا درس دیتے تو خوشبو لگا کر، غسل کر کے، نہایت متین انداز میں تشریف فرما ہوتے۔ اگر کوئی سوال کیا جاتا تو تحمل سے سنتے اور پورے وقار کے ساتھ جواب دیتے۔ اگر کوئی طالب علم بدتمیزی کرتا تو اسے نرمی سے سمجھاتے، کبھی بھی اس کی بے ادبی کو وجہ بنا کر اس کی علمی پیاس کو نظر انداز نہ کرتے۔
سلف کا اختلاف کبھی فرقہ واریت، جماعت بندی یا ذاتی دشمنی کا سبب نہ بنتا تھا۔ امام ابو حنیفہ، امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ کے درمیان کئی مسائل میں اختلاف پایا جاتا ہے، لیکن اس کے باوجود انہوں نے ایک دوسرے کو کبھی گمراہ، بدعتی یا فاسق نہیں کہا۔ بلکہ وہ ایک دوسرے کے علم، تقویٰ اور اخلاص کے معترف رہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ، امام احمد کے استاد بھی تھے، اور جب ان کے درمیان بعض مسائل میں اختلاف ہوا تو امام احمد فرمایا کرتے تھے کہ امام شافعی کی مثال اس طرح ہے جیسے سورج روشنی دیتا ہے اور بارش زمین کو سیراب کرتی ہے۔ یہ تعریف اس بات کا ثبوت ہے کہ سلف کا تعلق دلوں سے ہوتا تھا، نہ کہ صرف دلائل سے۔
سلف کے ہاں اختلاف دلیل سے ہوتا تھا، تعصب سے نہیں۔ اگر کوئی نئی بات یا دلیل سامنے آتی تو وہ اس پر غور کرتے، اسے رد یا قبول کرتے، مگر اس کے پیچھے جذبات یا فرقہ پرستی نہیں ہوتی تھی۔ امام احمد بن حنبل فرماتے تھے کہ اگر کوئی مسئلہ مجھے امام شافعی کے ذریعے سمجھ آ جائے تو میں اس پر اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں، چاہے وہ میری رائے کے خلاف ہو۔ یہ اخلاص کی وہ بلند ترین سطح ہے جہاں اپنی غلطی ماننا فخر کی بات سمجھی جاتی ہے، نہ کہ کمزوری۔
سلف مخالف کی بات کو مکمل توجہ سے سنتے تھے۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے شاگرد حماد بن ابی سلیمان نے لکھا ہے کہ اگر کوئی شخص امام صاحب سے تیز لہجے میں یا سختی سے سوال کرتا تو وہ نہایت نرمی اور متانت سے جواب دیتے اور اس کی سختی کا جواب سختی سے نہ دیتے۔ یہی حلم، برداشت اور اخلاقی وقار سلف کی پہچان تھا۔ وہ علم کو تلوار نہیں بلکہ چراغ بناتے تھے، جو اندھیروں کو روشنی میں بدل دے۔
سلف کے علمی مکالمات کا ایک اہم پہلو یہ تھا کہ وہ ہمیشہ اللہ کی رضا کو سامنے رکھتے تھے۔ امام شافعی فرماتے ہیں کہ جب میں کسی سے بحث کرتا ہوں تو میری خواہش ہوتی ہے کہ اللہ اس کی زبان پر حق جاری کر دے تاکہ میں اسے تسلیم کر لوں۔ یہ اس بات کا اظہار ہے کہ ان کا مقصد اپنی جیت نہیں بلکہ حق کا غلبہ تھا۔ ایسے لوگ جب بحث کرتے ہیں تو ان کا علم بھی برکت والا ہوتا ہے اور ان کا اختلاف بھی امت کے لیے خیر و رحمت بن جاتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت بھی یہی تھی کہ اختلاف کو حلم اور حکمت سے سنبھالا جائے۔ غزوۂ خندق کے بعد جب آپ ﷺ نے فرمایا کہ عصر کی نماز بنی قریظہ کے مقام پر جا کر پڑھنا ہے، تو بعض صحابہ نے راستے میں پڑھ لی اور بعض نے وہاں پہنچ کر۔ لیکن آپ ﷺ نے دونوں گروہوں کو صحیح قرار دیا، کیونکہ دونوں نے نیت خیر کے ساتھ اور اپنے فہم کے مطابق عمل کیا تھا۔ سلف نے اس سنت کو اپنا شعار بنایا اور کبھی اجتہادی اختلاف کو جھگڑے یا فتنہ کی بنیاد نہ بنایا۔
سلف صالحین کی زندگی سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ اگر اختلاف ہو تو اسے علم، ادب، حلم اور اخلاص کے ساتھ اپنایا جائے۔ ہمیں ان کے اسلوب کو نہ صرف سیکھنا ہے بلکہ اپنی علمی مجالس، مدارس، جامعات اور عوامی خطاب میں اسے عملی طور پر نافذ بھی کرنا ہے۔ جب ہم کسی سے اختلاف کریں تو ہمارے لہجے میں نرمی ہو، دلیل ہو، اور مقصد صرف حق کی تلاش ہو۔ اگر ہم واقعی سلف کے وارث ہیں تو ہمیں ان کے کردار، زبان، نیت اور اسلوب کو اپنانا ہو گا۔ ورنہ صرف نام لینے سے ہم ان کے پیروکار نہیں بن سکتے۔