شیخ محمد المختار الشنقیطی کی کتاب (الأزمة الدستورية في الحضارة الإسلامية) کا جائزہ

شیخ محمد المختار الشنقیطی کی کتاب (الأزمة الدستورية في الحضارة الإسلامية) کا جائزہ

Last Updated: 1 week ago

شجاع مشتاق/ اننت ناگ

 

کتاب الأزمة الدستورية في الحضارة الإسلامية اسلامی تمدن میں آئینی بحران کے موضوع پر ایک عمیق مطالعہ پیش کرتی ہے، جس میں اسلامی خلافت کے ادارے کو درپیش چیلنجز، ان کی وجوہات، اور ان کے اثرات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا ہے۔ مصنف(شیخ محمد المختار الشنقیطی) نے اسلامی سیاسی فکر کے ارتقاء اور ان اصولوں پر بھی روشنی ڈالی ہے جو اسلامی حکومت کی اساس بنتے ہیں۔

کتاب میں اسلامی خلافت کے بنیادی نظریے کو زیر بحث لایا گیا ہے اور یہ واضح کیا گیا ہے کہ خلافت راشدہ کے بعد حکومتی ڈھانچے میں کیا تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ مصنف کا کہنا ہے کہ اسلامی خلافت کی روح شریعت کی بالادستی اور مشاورت کے اصول پر مبنی تھی لیکن بعد میں یہ اصول کمزور ہوتے گئے اور ایک آمرانہ طرز حکومت نے جگہ لے لی۔ وہ لکھتے ہیں:

"الخلافة في أصلها نظام قائم على الشريعة والمشاورة، فإذا أهملتا تحولت إلى ملك جبر."

خلافت اپنی اصل میں شریعت اور مشاورت پر مبنی نظام تھا، لیکن جب ان دونوں کو نظر انداز کیا گیا تو یہ جابرانہ بادشاہت میں بدل گئی۔

مصنف نے اسلامی تاریخ میں رونما ہونے والے آئینی بحرانوں کی وضاحت کرتے ہوئے خلفائے راشدین کے دور میں حکومتی نظم و نسق کے اصولوں کا جائزہ لیا ہے۔ وہ اس حقیقت کو بیان کرتے ہیں کہ خلافت راشدہ میں حکمرانوں کا انتخاب ایک مشاورتی عمل کے تحت ہوتا تھا، لیکن بعد میں اس میں موروثی بادشاہت کا عنصر شامل ہو گیا، جو اسلامی آئینی اصولوں کے منافی تھا۔

مصنف اس بات پر زور دیتے ہیں کہ اسلامی حکومت کی اصل روح عدل، مساوات اور مشاورت پر مبنی تھی۔ لیکن جب طاقت کے مراکز محدود ہاتھوں میں آ گئے اور شخصی اقتدار کو ترجیح دی جانے لگی، تو آئینی بحران شدت اختیار کر گیا۔ وہ لکھتے ہیں:

"إذا انحصر الحكم في يد فئة محددة وابتعد عن الشورى، فقد فسد نظام الدولة وأصبح الحكم ملكا متوارثا."

"جب حکومت مخصوص طبقے کے ہاتھ میں محدود ہو جائے اور شوریٰ سے دور ہو جائے، تو ریاست کا نظام بگڑ جاتا ہے اور حکومت موروثی بادشاہت میں تبدیل ہو جاتی ہے۔"

مصنف نے مختلف ادوار میں اسلامی حکومت کے آئینی بحرانوں کا تاریخی تجزیہ پیش کیا ہے۔ خاص طور پر اموی اور عباسی خلافت کے دوران رونما ہونے والی تبدیلیوں کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ اموی خلافت میں حکومت کی بنیاد موروثیت پر رکھی گئی، جو خلافت کے اصل اصولوں سے انحراف تھا۔ اسی طرح عباسی خلافت میں بھی خلافت ایک رسمی ادارہ بن کر رہ گئی اور حقیقی اقتدار وزراء اور درباری مشیروں کے ہاتھ میں چلا گیا۔

مصنف اس حقیقت کو بھی اجاگر کرتے ہیں کہ اسلامی حکومت کا اصل مقصد عدل و انصاف کا قیام تھا، لیکن جب حکمرانوں نے اقتدار کو اپنی ذاتی ملکیت سمجھنا شروع کیا، تو امت میں انتشار پیدا ہو گیا۔ وہ لکھتے ہیں:

"ما سقطت أمة إلا حينما فقدت العدل وجعلت الحكم وسيلة للسلطة لا لخدمة الناس."

"کوئی امت اس وقت تک زوال پذیر نہیں ہوتی جب تک وہ عدل کو ترک نہیں کرتی اور حکومت کو اقتدار کا ذریعہ بنا کر عوام کی خدمت سے غافل نہیں ہو جاتی۔"

کتاب میں اسلامی شریعت اور آئینی اصولوں کے باہمی تعلق کو بھی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ مصنف کا کہنا ہے کہ اسلامی حکومت کی بقا کا راز شریعت کی بالادستی میں مضمر ہے۔ جب بھی اسلامی حکومتوں نے شریعت کو پس پشت ڈالا اور انسانی خواہشات کو قانون سازی میں ترجیح دی، تو آئینی بحران پیدا ہوئے۔ وہ لکھتے ہیں:

"لا صلاح للحكم الإسلامي إلا إذا كان قائما على الشريعة، فإن تركها تفرقت الأمة وضعفت الدولة."

"اسلامی حکومت کی اصلاح ممکن نہیں جب تک کہ وہ شریعت پر قائم نہ ہو، کیونکہ جب اسے چھوڑ دیا جاتا ہے، تو امت منتشر ہو جاتی ہے اور ریاست کمزور پڑ جاتی ہے۔"

مصنف نے اسلامی تاریخ میں مختلف حکومتوں کے آئینی ڈھانچے کا بھی تقابلی جائزہ پیش کیا ہے۔ وہ ان اسباب پر روشنی ڈالتے ہیں جن کی وجہ سے اسلامی حکومتیں زوال پذیر ہوئیں اور امت مسلمہ سیاسی اعتبار سے انتشار کا شکار ہوئی۔ وہ اس حقیقت کو واضح کرتے ہیں کہ جب مسلمانوں نے اسلامی اصولوں کو چھوڑ کر طاقت کی سیاست کو اپنایا، تو خلافت کمزور پڑ گئی اور داخلی بحرانوں نے جنم لیا۔

کتاب کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ اس میں اسلامی سیاست کو صرف تاریخی تناظر میں نہیں دیکھا گیا بلکہ اس کے اصولوں کو آج کے دور سے بھی جوڑا گیا ہے۔ مصنف کا کہنا ہے کہ اگر امت مسلمہ آج بھی اپنے آئینی اور سیاسی نظام کو درست کرنا چاہتی ہے، تو اسے اسلامی اصولوں کی طرف واپس آنا ہوگا۔ وہ لکھتے ہیں:

"لن تنهض الأمة إلا إذا رجعت إلى مبادئ الحكم الرشيد القائم على الشريعة والشورى والعدل."

"امت اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتی جب تک کہ وہ شریعت، شوریٰ اور عدل پر مبنی حکمرانی کے اصولوں کی طرف واپس نہ آئے۔"

یہ کتاب اسلامی سیاسی فکر کا ایک جامع تجزیہ پیش کرتی ہے، جس میں مصنف نے تاریخی شواہد اور علمی استدلال کے ذریعے اسلامی خلافت کے زوال اور آئینی بحرانوں کے اسباب کو واضح کیا ہے۔ وہ اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ اسلامی حکومت کی کامیابی کا دار و مدار شریعت پر عمل، عدل و انصاف کے قیام، اور مشاورت کے اصول پر مبنی حکمرانی میں ہے۔ اگر یہ اصول ترک کر دیے جائیں، تو اسلامی تہذیب میں سیاسی انتشار اور زوال ناگزیر ہو جاتا ہے۔

کتاب کا اسلوب تحقیقی اور علمی ہے، اور اس میں تاریخی واقعات کا بھرپور حوالہ دیا گیا ہے۔ مصنف نے اصل ماخذوں سے استفادہ کیا ہے، جو اس تحقیق کو مزید مستند بنا دیتا ہے۔ یہ کتاب ان قارئین کے لیے نہایت اہم ہے جو اسلامی تاریخ، اسلامی قانون، اور سیاسی فکر کے ارتقاء میں دلچسپی رکھتے ہیں۔

میرے نقطہ نظر سے، الأزمة الدستورية في الحضارة الإسلامية ایک لازمی مطالعہ ہے کیونکہ:

اسلامی سیاسی فکر کی گہرائی سے وضاحت: یہ کتاب اسلامی خلافت، حکومتی نظام، اور آئینی بحرانوں کا ایک علمی اور تحقیقی تجزیہ پیش کرتی ہے۔

تاریخی شعور میں اضافہ: اسلامی تاریخ میں رونما ہونے والے آئینی مسائل، خلافت سے بادشاہت میں تبدیلی، اور اس کے اثرات کو واضح کرتی ہے۔

اصل ماخذوں پر مبنی تحقیق: مصنف نے مستند تاریخی حوالوں اور فقہی دلائل کی بنیاد پر اپنے نظریات کو ثابت کیا ہے، جو تحقیق کے شوقین افراد کے لیے نہایت اہم ہے۔

اسلامی حکومت کے اصولوں کی وضاحت: شوریٰ، عدل، اور شریعت کی بالادستی جیسے بنیادی اسلامی حکومتی اصولوں کی تفصیل سے وضاحت کی گئی ہے۔

آج کے دور کے لیے رہنمائی: یہ کتاب صرف تاریخی جائزہ نہیں بلکہ موجودہ دور کے سیاسی اور آئینی مسائل کے حل کے لیے بھی ایک راہ متعین کرتی ہے۔

امت مسلمہ کے زوال کے اسباب کی نشان دہی: مسلم دنیا میں آئینی اور سیاسی انحطاط کے اسباب اور ان کے ممکنہ حل کو بیان کرتی ہے۔

موجودہ اسلامی ریاستوں کے لیے ایک سبق: اسلامی ممالک میں حکمرانی کے نظام کو اسلامی اصولوں کے مطابق بنانے کے لیے ایک فکری بنیاد فراہم کرتی ہے۔

تحقیقی اور علمی اسلوب: کتاب کا انداز علمی، تحقیقی اور مدلل ہے، جو سنجیدہ قارئین کے لیے انتہائی مفید ہے۔

اسلامی تاریخ کے طلبہ اور محققین کے لیے ضروری مطالعہ: جو لوگ اسلامی سیاست، تاریخ، اور فقہ میں دلچسپی رکھتے ہیں، ان کے لیے یہ ایک بنیادی کتاب ہے۔

مسلم دنیا کے آئندہ سیاسی راستے پر غور و فکر کا موقع: یہ کتاب امت مسلمہ کو اپنے ماضی سے سبق سیکھنے اور ایک مضبوط اسلامی حکومتی ڈھانچے کی طرف پلٹنے کی دعوت دیتی ہے۔

نوٹ: شیخ محمد المختار الشنقیطی کی ہر بات سے مکمل اتفاق ضروری نہیں، تاہم اس کتاب کی علمی اور فکری اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے۔ نیز، اس کتاب کا اردو ترجمہ(اسلامی تمدن میں ائینی بحران) محترم ڈاکٹر محی الدین غازی صاحب نے کیا ہے۔