رسول اکرمؐ کی حکمت اور بصیرت: اسلامی انقلاب کا نظریاتی اور عملی تجزیہ

رسول اکرمؐ کی حکمت اور بصیرت: اسلامی انقلاب کا نظریاتی اور عملی تجزیہ

Last Updated: 1 week ago

✍️۔۔۔ شجاع مشتاق/اننت ناگ

 

وہ دانائے سُبُل مولائے کُل ختم الرُسُل جس نے

غبارِ راہ کو بخشا فروغِ وادیِ سینا

نگاہِ عشق و مستی میں وہی اول وہی آخر

وہی قرآں، وہی فرقاں، وہی یٰسیں ، وہی طہٰ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ ایک مثالی اور کامل نمونہ ہے جو انسانی زندگی کے ہر پہلو کو محیط ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا بنیادی مقصد ایک ایسے معاشرتی اور فکری انقلاب کی راہ ہموار کرنا تھا جو توحید، عدل، اخلاقی برتری اور انسانی وقار کی اساس پر استوار ہو۔ تاریخ گواہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک انتہائی زوال پذیر معاشرے کو حکمت، صبر، تدبر اور عدل کے اصولوں پر استوار کرتے ہوئے ایک ایسا تمدن عطا کیا جو صدیوں تک انسانی سماج کے لیے روشنی کا مینار بنا رہا۔ یہ انقلاب محض سیاسی یا اقتصادی نوعیت کا نہیں تھا، بلکہ اس کی بنیاد ایک فکری و اخلاقی اصلاح تھی جسے قرآن نے "حکمت" کے طور پر تعبیر کیا۔

قرآن مجید میں متعدد مقامات پر "حکمت" کو ایک الہامی نعمت قرار دیا گیا ہے، جیسا کہ سورہ بقرہ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: "يُؤْتِي الْحِكْمَةَ مَنْ يَشَاءُ ۚ وَمَنْ يُؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْرًا كَثِيرًا" (البقرہ: 269)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بھی قرآن میں بارہا ذکر آیا کہ آپ کو "کتاب اور حکمت" عطا کی گئی، جو اس بات کی دلیل ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر اقدام حکمت اور بصیرت پر مبنی تھا۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکمت کا اظہار مکی زندگی کے ابتدائی ایام سے ہی ہوتا ہے، جہاں آپ نے خاموشی کے ساتھ افراد کی فکری و روحانی تربیت کا آغاز کیا۔ ابتدا میں مخصوص افراد کو توحید کا پیغام دینا، پھر تدریجاً قریش کے سامنے دعوت پیش کرنا اور ظلم و ستم کے باوجود صبر و استقامت کا مظاہرہ کرنا، یہ تمام اقدامات ایک وسیع حکمت عملی کا حصہ تھے۔ طائف میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہونے والا سفاکانہ سلوک اور اس کے جواب میں بددعا کے بجائے ہدایت کی دعا کرنا، قیادت کے اصولوں میں تحمل اور بصیرت کی اعلیٰ مثال ہے۔

مدینہ ہجرت کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف ایک نئی ریاست کی بنیاد رکھی بلکہ مہاجرین اور انصار کے درمیان "مواخات" کا رشتہ قائم کر کے ایک ایسی معاشرتی ہم آہنگی پیدا کی جو کسی بھی ترقی پذیر معاشرے کے لیے ناگزیر ہے۔ یہ اقدام ابن خلدون کے اس نظریے کی عملی تفسیر معلوم ہوتا ہے، جس میں وہ معاشرتی یکجہتی اور اجتماعی استحکام کو ریاستی بقا کی بنیادی شرط قرار دیتے ہیں۔ مسجد نبوی کو صرف عبادت کا مرکز نہیں بلکہ ایک تعلیمی اور تربیتی ادارہ بنانا اس امر کی دلیل ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت کا محور علمی و فکری اصلاح تھا۔

سیاسی سطح پر، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکمت کا نقطۂ عروج "صلح حدیبیہ" ہے، جہاں بظاہر مسلمانوں کے لیے بظاہر غیر موافق شرائط کو قبول کر کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایسا موقع پیدا کیا جس نے آئندہ کے لیے اسلامی فتوحات کی راہ ہموار کر دی۔ سید ابوالاعلیٰ مودودی اس صلح کو ایک سیاسی بصیرت کا شاہکار قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اگرچہ بادی النظر میں یہ معاہدہ کمزوری کی علامت لگتا تھا، لیکن حقیقت میں یہ حکمت و تدبر کا وہ اقدام تھا جس نے بعد میں مکہ کی فتح کی راہ ہموار کی۔

مدینہ میں اسلامی ریاست کے قیام کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عدل و انصاف پر مبنی معاشرتی نظم قائم کیا، جہاں ہر شہری کو مساوی حقوق حاصل تھے۔ غیر مسلم قبائل کے ساتھ "میثاقِ مدینہ" کے ذریعے ایک اجتماعی معاہدہ تشکیل دینا اور اس میں یہ اصول طے کرنا کہ تمام شہریوں کو مذہبی آزادی حاصل ہوگی، سماجی ہم آہنگی کی ایک لازوال مثال ہے۔ علامہ ابن قیم الجوزیہ اس معاہدے کو بین المذاہب تعلقات میں فکری آزادی اور رواداری کی ایک نادر مثال قرار دیتے ہیں۔

فتح مکہ کے موقع پر، جہاں عرب روایات کے مطابق فاتح گروہ کے لیے انتقامی کارروائیاں ایک عام امر تھا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عمومی معافی کا اعلان کر کے انسانی اخلاقیات کی ایک نئی مثال قائم کی۔ ابن تیمیہ اس حوالے سے لکھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں فتح ایک ایسا نظریہ بن کر سامنے آئی جو جبر اور قہر کے بجائے رحمت اور اصلاح پر مبنی تھی۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت محض ایک تاریخی بیانیہ نہیں بلکہ ایک ہمہ گیر اور آفاقی رہنمائی فراہم کرتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکمت، قیادت، سیاسی بصیرت، سماجی اصلاحات اور عدل و انصاف کے اصول آج بھی ہر اس سماج کے لیے ایک مکمل ضابطہ فراہم کرتے ہیں جو حقیقی فلاح و بہبود اور ترقی کا خواہاں ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کو نہ صرف اسلامی تاریخ بلکہ عالمی سماجی و سیاسی نظریات کے تناظر میں بھی سمجھنے کی ضرورت ہے تاکہ اس میں مضمر حکمت اور بصیرت سے صحیح معنوں میں استفادہ کیا جا سکے۔