قربانی کی رسم غیر عقلی اور قدیم ہے: لبرلز کے دوسرے اعتراض کا جواب

قربانی کی رسم غیر عقلی اور قدیم ہے: لبرلز کے دوسرے اعتراض کا جواب

Last Updated: 1 week ago

محسن خان 

 

آج کے بعض جدیدیت پسند یا سیکولر ذہن رکھنے والے افراد قربانی کو ایک "غیر عقلی" اور "قدیم وحشیانہ رسم" قرار دیتے ہیں۔ ان کا دعویٰ یہ ہوتا ہے کہ انسان اب عقلی ارتقاء کی منازل طے کر چکا ہے، لہٰذا ایسی روایات جن میں جانوروں کو ذبح کیا جاتا ہے، انہیں ترک کر دینا چاہیے کیونکہ یہ دقیانوسی اور غیر سائنسی معلوم ہوتی ہیں۔ اس اعتراض کے پیچھے اصل میں مذہب، وحی، اور روحانیت سے دوری، اور صرف عقلیت و سائنسی مادّیت کو معیارِ حق ماننے کا رجحان کارفرما ہے۔

سب سے پہلے یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ ہر وہ عمل جو قدیم ہو، ضروری نہیں کہ غیر عقلی یا باطل ہو۔ کیا سچ بولنا، عدل قائم کرنا، ماں باپ کا احترام کرنا، یا حق کا ساتھ دینا، یہ سب چونکہ "قدیم روایات" ہیں، تو کیا انہیں بھی ترک کر دینا چاہیے؟ صرف کسی عمل کے قدیم ہونے سے اس کی صداقت یا عقلیت ختم نہیں ہوتی۔ بلکہ بعض اوقات قدیم اقدار ہی انسانی فطرت اور اخلاقیات کا اصل سرمایہ ہوتی ہیں، جنہیں وقت گزرنے کے ساتھ مزید مضبوطی سے اپنانا چاہیے نہ کہ ترک کر دینا چاہیے۔

قربانی کی بنیاد محض کوئی دیہی یا تہذیبی روایت نہیں بلکہ ایک باقاعدہ وحی پر مبنی عبادت ہے جس کی جڑیں تاریخِ نبوت، وحیِ الٰہی، اور روحانی ارتقاء میں پیوست ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی کا واقعہ انسانی تاریخ میں سب سے بڑی علامت ہے اس بات کی کہ انسان اپنی سب سے عزیز چیز اللہ کی رضا کے لیے قربان کر دے۔ یہ واقعہ صرف ایک رسم نہیں بلکہ ایک مکمل فکری، اخلاقی اور روحانی نظام کا شاخسانہ ہے، جس میں وفاداری، اطاعت، قربانی، ایثار اور ایمان کی اعلی ترین مثال ملتی ہے۔

عقل کا تقاضا یہ ہے کہ وہ ہر دعوے اور عمل کو اس کے سیاق و سباق (context) میں سمجھے، اور ہر چیز کو اپنی نوعیت کے مطابق جانچے۔ قربانی کو اگر صرف ظاہری طور پر "جانور کے ذبح" کی حد تک سمجھا جائے تو یہ سطحی سوچ ہے۔ درحقیقت قربانی ایک وسیع تر اخلاقی علامت ہے، جو انسان کو تربیت کرتی ہے کہ وہ اپنے نفس، خواہشات، حرص، اور دنیاوی محبت کو اللہ کی رضا کے لیے قربان کرے۔ اسی لیے قرآن میں فرمایا گیا:

 

 "لَن تَنَالُوا۟ ٱلۡبِرَّ حَتَّىٰ تُنفِقُوا۟ مِمَّا تُحِبُّونَۚ وَمَا تُنفِقُوا۟ مِن "شَیۡءࣲ فَإِنَّ ٱللَّهَ بِهِۦ عَلِیمࣱ 

(سورة آل عمران:٩٢)

مزید برآں، جو لوگ اسے غیر عقلی کہتے ہیں، انہیں چاہیے کہ وہ اس عمل کو سوسائٹی پر اس کے اثرات کی روشنی میں دیکھیں۔ قربانی کے نتیجے میں:

 

لاکھوں غریب افراد کو گوشت مہیا ہوتا ہے،

معاشرتی برابری اور ہمدردی پیدا ہوتی ہے،

خاندان اور سماج میں تعلق و اشتراک بڑھتا ہے،

اور فرد میں قربانی، اطاعت، اور سادہ طرزِ زندگی کا شعور پیدا ہوتا ہے۔

یہ سب ایسے اخلاقی و سماجی فوائد ہیں جنہیں عقل خود تسلیم کرتی ہے، بلکہ مغربی مفکرین بھی ایثار، اشتراک اور روحانی علامتوں کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہیں، اگرچہ مذہبی شعائر سے دور رہتے ہوئے وہ ان کی تعبیر مختلف انداز میں کرتے ہیں۔

مزید یہ کہ سائنسی مادّیت کا یہ مفروضہ کہ "عقل صرف وہی چیز تسلیم کرے جو تجربہ یا مشاہدے سے ثابت ہو"، خود ایک غیر عقلی مفروضہ ہے۔ محبت، ایثار، عزت، وفا، اور اللہ پر ایمان،یہ سب عقل و وجدان کا حصہ ہیں، اور انسانی زندگی کے اعلیٰ ترین مقاصد ہیں، لیکن یہ لیبارٹری میں ماپے نہیں جا سکتے۔ قربانی ان ہی اعلیٰ انسانی اقدار کو عملی شکل دینے کا ایک مظہر ہے۔

لہٰذا قربانی کو "غیر عقلی" یا "قدیم وحشیانہ رسم" کہنا نہ صرف علمی لحاظ سے سطحی اعتراض ہے بلکہ روحانی اور سماجی حقیقتوں سے غفلت کا مظہر بھی ہے۔ یہ اعتراض دراصل ایک مخصوص لادینی ذہنیت کا نتیجہ ہے جو ہر اس عمل کو مشکوک بنا دیتی ہے جس کا تعلق وحی، عبادت یا روحانیت سے ہو۔

نتیجتاً، قربانی ایک عقلی، اخلاقی، فطری اور روحانی عبادت ہے، جو صرف جانور ذبح کرنے کا عمل نہیں بلکہ ایک فکری و تہذیبی پیغام ہے، جو آج کی مادی دنیا میں انسان کو حقیقی معنوں میں انسان بننے کا سبق دیتی ہے۔