
قربانی کا جذبہ — رسم سے حقیقت تک
عبد الحنان
اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے جو نہ صرف عبادات بلکہ اخلاقیات اور معاشرت میں بھی انسان کی رہنمائی کرتا ہے۔ عید الاضحیٰ، جو کہ قربانی کا تہوار ہے، دراصل حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی بے مثال اطاعت، محبت، اور اللہ کے حکم پر قربانی کے جذبے کی یادگار ہے۔ لیکن سوال یہ ہے: کیا آج بھی ہم اس قربانی کی روح کو سمجھتے ہیں؟ یا پھر یہ عمل صرف ایک مذہبی رسم بن کر رہ گیا ہے؟
جب حضرت ابراہیمؑ نے خواب میں اپنے لختِ جگر حضرت اسماعیلؑ کو قربان کرنے کا حکم سنا، تو نہ تردد کیا، نہ سوال اُٹھایا — بس حکمِ رب کو تسلیم کیا۔ یہی وہ لمحہ ہے جس نے "قربانی" کو محض ایک عبادت نہیں، بلکہ تاریخِ انسانیت میں اطاعت و وفا کا استعارہ بنا دیا۔ آج صدیوں سے ہم اُسی یاد کو تازہ کرنے کو عیدالاضحیٰ مناتے ہیں، مگر سوال یہ ہے:
کیا ہم نے ابراہیمی قربانی کی روح کو سمجھا ہے، یا اسے صرف ایک سالانہ رسم بنا دیا ہے؟
اسلام میں قربانی محض جانور کی گردن پر چھری پھیرنے کا نام نہیں۔ یہ درحقیقت دل کی خلوصیت، نیت کی پاکیزگی، اور ارادے کی سچائی کا مظہر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں واضح فرما دیا:
" اللہ کو نہ ان کا گوشت پہنچتا ہے، نہ ان کا خون، بلکہ تمہاری پرہیزگاری پہنچتی ہے۔"
اس ایک آیت میں قربانی کی اصل روح، اس کا مقصد، اور اللہ کی منشا کو بخوبی واضح کر دیا گیا ہے۔ لیکن آج، جب قربانی کی اصل روح کو تلاش کیا جائے، تو وہ سوشل میڈیا پر اپلوڈ کی گئی تصویروں، مہنگے جانوروں کی قیمتوں، اور دکھاوے کی دوڑ میں کہیں کھو چکی نظر آتی ہے۔
قربانی اگر محض رسم ہو جائے، تو روحانیت رخصت ہو جاتی ہے۔ ہم جانور تو قربان کرتے ہیں، مگر اپنے اندر چھپی ہوئی انا، ضد، نفرت، حسد اور خودغرضی کو بچا لیتے ہیں۔ ہم حضرت ابراہیمؑ کی سنت تو دہراتے ہیں، مگر اُن جیسی اطاعت، سادگی اور خلوص سے محروم رہتے ہیں۔
آج کے دور کا تقاضا یہ ہے کہ ہم قربانی کے مفہوم کو نئے زاویے سے سمجھیں۔ آج کا انسان شاید جانور خریدنے کی استطاعت رکھتا ہو، مگر اپنی نیند، آرام، وقت، اور مفاد کی قربانی دینا بھول چکا ہے۔ عید قربان کا پیغام یہی ہے کہ اگر تم سچے مومن ہو، تو اپنی زندگی میں اللہ کے حکم کو اولین ترجیح دو، خواہ وہ تمہارے نفس کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔
یاد رکھیے، وہ قربانی ہی کیا جو صرف جانوروں تک محدود ہو جائے؟
قربانی وہ ہے جو انسان کو انسان بنا دے — نرم دل، سچا، دیانتدار، اور خالص۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری قربانی ربِِ کائنات کے بارگاہ میں قبول ہو، تو ہمیں رسم سے حقیقت کی طرف لوٹنا ہوگا۔ عیدالاضحیٰ صرف تہوار نہیں، ایک دعوتِ فکر ہے — کہ کیا ہم بھی حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسماعیلؑ کی راہ پر چلنے کو تیار ہیں؟ اگر ہاں، تو ہمیں نہ صرف جانور، بلکہ اپنی خودی، اپنے نفس اور اپنی دنیا پرستی کو بھی اللہ کی رضا کے لیے قربان کرنا ہوگا۔