
پردہ عورت کی آزادی پر پابندی ایک اعتراض کا جواب:
محسن خان
پردہ عورت کی آزادی پر پابندی نہیں بلکہ اس کی عزت، وقار اور تحفظ کا ضامن ہے۔ اسلامی تعلیمات عورت کو کسی بھی قیمت پر ذلت کا شکار ہونے سے بچاتی ہیں۔ پردے کا مقصد یہ نہیں کہ عورت کو محبوس رکھا جائے، بلکہ اس کا اصل مقصد عورت کی شخصیت کو اس کی جسمانی نمائش سے ہٹاکر اس کے کردار، علم اور وقار کی بنیاد پر پہچان دینا ہے۔ قرآن مجید نے واضح انداز میں فرمایا:
"ذٰلِكَ أَدْنَىٰ أَنْ یُّعْرَفْنَ فَلَا یُؤْذَیْنَ"
یہ زیادہ مناسب ہے تاکہ وہ پہچانی جائیں اور انہیں ایذا نہ دی جائے۔
(سورۃ الاحزاب: ٥٩)
مذکورہ درحقیقت اسلامی معاشرت کے اس بنیادی اصول کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ عورت کو ایسے ماحول میں رکھا جائے جہاں اس کی عزت محفوظ ہو، اور وہ جنسی استحصال یا ہراسانی سے بچی رہے۔ آج کی دنیا، خاص طور پر مغربی معاشرہ، جو عورت کی "آزادی" کا نعرہ لگاتا ہے، وہاں خود عورتیں اپنے جسم، اپنی شکل و صورت، اور اپنی نسوانیت کو بازار کی چیز بنتے ہوئے دیکھتی ہیں۔ اشتہارات، فلمیں، میگزین، اور سوشل میڈیا، سب میں عورت کو جنسی طور پر پیش کیا جاتا ہے۔
اسلام اس رویے کے خلاف ایک مکمل اور مہذب نظام پیش کرتا ہے۔ حجاب، عورت کو صرف ظاہری نگاہوں سے نہیں بلکہ مردوں کی ہوس سے بھی محفوظ کرتا ہے۔ وہ عورت، جو اپنے جسم کو پردے میں رکھتی ہے، وہ درحقیقت اس بات کا اعلان کرتی ہے کہ اس کی قدر و قیمت اس کے جسم میں نہیں بلکہ اس کی عقل، اس کے کردار اور اس کی روح میں ہے۔
معروف مغربی فیمینسٹ مفکرہ ناؤمی وولف (Naomi Wolf) اپنے تجربے کے بعد لکھتی ہیں کہ مراکش کے سفر میں جب انہوں نے اسلامی لباس اور حجاب اختیار کیا تو انہیں ایک عجیب سی ذہنی اور جسمانی راحت محسوس ہوئی۔ وہ لکھتی ہیں:
"I was surprised to find that Muslim women wearing hijab often reported feeling more, not less, empowered, free from being reduced to their sexual identity."
(Sydney Morning Herald, 2008)
نیز، اپنی کتاب "The Beauty Myth" میں لکھتی ہے:
"Women’s value lies in their youth, beauty, and sexual availability."
یعنی عورت کی اصل قدر اس کے علم، کردار یا عقل میں نہیں، بلکہ اس کے جسمانی حسن اور جنسی کشش میں ہے۔ یہی تصور مغربی تہذیب کی بنیادی اخلاقی زوال کا پتہ دیتا ہے۔
اسی طرح آگے مزید لکھتی ہیں:
"Beauty" is a currency system like the gold standard. Like any economy, it is determined by politics, and in the modern age in the West it is the last, best belief system that keeps male dominance intact. In assigning value to women in a vertical hierarchy according to a culturally imposed physical standard, it is an expression of power relations in which women must unnaturally compete for re-sources that men have appropriated for themselves."
یعنی خوبصورتی ایک کرنسی سسٹم ہے، بالکل سونے کے معیار (gold standard) کی طرح۔ ہر معیشت کی طرح، اس کا تعین بھی سیاسی عوامل کے ذریعے ہوتا ہے، اور مغرب کے جدید دور میں یہ مردانہ بالادستی کو قائم رکھنے والا آخری اور سب سے مؤثر اعتقادی نظام ہے۔ خواتین کی قدر و قیمت کو ایک ثقافتی طور پر مسلط کردہ جسمانی معیار کے مطابق عمودی درجہ بندی میں تقسیم کرنا دراصل طاقت کے تعلقات کا اظہار ہے، جن میں خواتین کو غیر فطری طور پر اُن وسائل کے لیے مقابلہ کرنا پڑتا ہے جو مرد پہلے ہی اپنے لیے مخصوص کر چکے ہوتے ہیں۔
(The Beauty Myth, p. 12)
اور یہ بات یہاں قابلِ ذکر ہے کہ مذکورہ خیالات پیش کرنے والی مصنفہ خود ایک معروف فیمنسٹ (Feminist) ہیں۔
یہ اعترافات اس حقیقت کو ظاہر کرتے ہیں کہ اسلامی حجاب کو صرف جبر یا پابندی کے تناظر میں دیکھنا سراسر ناانصافی ہے۔ درحقیقت، حجاب عورت کو اس دنیا کی سب سے بڑی اذیت، یعنی "جسمانی نظروں کی جنس" بننے سے بچاتا ہے۔
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ خواتین کے جنسی استحصال کے واقعات مغرب میں ہی سب سے زیادہ پائے جاتے ہیں۔ UN Women کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا میں ہر تین میں سے ایک عورت کسی نہ کسی شکل میں جنسی تشدد کا شکار ہو چکی ہے۔ RAINN کی رپورٹ کے مطابق امریکہ میں ہر 68 سیکنڈ میں ایک عورت ریپ یا اس کی کوشش کا شکار بنتی ہے۔ MeToo جیسی تحریکیں اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہیں کہ آزادی، بے حجابی اور خودمختاری کے یہ نعرے عورت کو تحفظ دینے میں ناکام رہے ہیں۔
اسلام نے عورت کو تنہا نہیں چھوڑا بلکہ ایک مضبوط نظام کے تحت اسے عزت، وقار اور وقایت عطا کی ہے۔ جب عورت پردے کے ساتھ نکلتی ہے تو وہ اپنی شناخت کا تعین خود کرتی ہے، نہ کہ سماج کی ہوس بھری آنکھیں۔اسلامی پردہ فطرت، عقل اور تجربے کے عین مطابق ہے۔ اس کے برعکس، مغربی تصورِ آزادی عورت کو ظاہری حسن اور جنسی دلکشی میں قید کر دیتا ہے، جو درحقیقت ایک نئی غلامی ہے۔اس لیے پردہ پر "آزادی کی پابندی" کا الزام لگانے سے پہلے یہ دیکھنا چاہیے کہ اصل میں قید کہاں ہے؟ اس عورت کی جو اپنی حفاظت کے لیے پردہ کرتی ہے؟ یا اس عورت کی جو مردوں کی نظروں میں محض ایک جسمانی شے بن کر رہ گئی ہے؟
اسلام نے عورت کو خود پر اختیار دیا ہے کہ وہ اپنی عظمت کو سنبھالے، نہ کہ دنیا کی منڈی میں نیلام کرے۔ اور یہی اصل آزادی ہے۔