
واپسی: ایک نوجوان کی کہانی
شجاع مشتاق
وہ شام کچھ عجیب سی تھی۔ سورج افق کے پیچھے چھپ رہا تھا اور آسمان پر سنہری رنگ بکھر رہے تھے۔ شہر کی ایک مصروف گلی میں واقع ایک چھوٹے سے کمرے میں، ایک نوجوان کھڑکی کے پاس بیٹھا تھا، نام تھا اس کا فہد۔ عمر کوئی بیس برس ہوگی، مگر آنکھوں میں سوالات کا سمندر اور دل میں ایک ان دیکھے خلا کی گونج تھی۔ اس کی دنیا موبائل کی اسکرین اور سوشل میڈیا کی چکاچوند میں گم ہو چکی تھی۔ وہ مسجد سے دور، کتاب سے غافل اور سچ سے ناآشنا ہوتا جا رہا تھا۔ والدین کی باتیں اب نصیحت نہیں بلکہ جھنجھلاہٹ لگتی تھیں، اور دین، بس ایک پرانی روایت کا نام معلوم ہوتی تھی۔
فہد کی زندگی میں وہ لمحہ تب آیا جب ایک دن کالج جاتے ہوئے اس نے ایک پرانا دوست، سلمان، دیکھا۔ سلمان کی آنکھوں میں سکون تھا، باتوں میں وقار تھا، اور چہرے پر ایسی روشنی تھی جیسے کوئی اندر سے جگمگا رہا ہو۔ فہد نے حیرانی سے پوچھا، "یار، تُو تو کبھی میرے ساتھ ہی رہتا تھا، اب تُو نے اپنے آپ کو کیا بدل لیا ہے؟" سلمان مسکرایا، "بس، دل تھک گیا تھا، اور پھر ایک دن قرآن کی ایک آیت نے مجھے ہلا کر رکھ دیا—کہ کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ تمہیں بے مقصد پیدا کیا گیا ہے؟"
یہ جملہ فہد کے دل میں جیسے تیر کی طرح لگا۔ اُس رات وہ سو نہ سکا۔ سوچتا رہا کہ میری زندگی کا مقصد کیا ہے؟ دن بس سکرولنگ میں گزر جاتے ہیں، اور راتیں تنہائی میں، جہاں کوئی سکون نہیں، صرف الجھنیں ہیں۔ اگلے دن وہ سلمان کے ساتھ مسجد چلا گیا۔ وہ جگہ جو کبھی اجنبی لگتی تھی، اب دل کو عجیب سی ٹھنڈک دے رہی تھی۔ وہاں ایک نرم لہجے والے امام صاحب تھے، جنہوں نے نہ صرف نماز کی امامت کی بلکہ نماز کے بعد بیٹھ کر نوجوانوں کے سوالات بھی سنے۔ فہد نے جب ان سے پوچھا کہ دل کو سکون کیسے ملے، تو انہوں نے صرف اتنا کہا، "جب دل اپنے خالق سے جڑ جائے، تو پھر دنیا کے سارے رشتے، مسئلے، پریشانیاں ثانوی ہو جاتے ہیں۔"
فہد نے آہستہ آہستہ اپنی زندگی میں تبدیلیاں لانا شروع کیں۔ اس نے سوشل میڈیا کا استعمال کم کیا، فجر کی نماز کو معمول بنایا، اور قرآن کو سمجھنے کی نیت سے پڑھنا شروع کیا۔ اور اس کی زندگی جیسے نئے رنگوں میں ڈھلنے لگی۔ وہی کلاس، وہی دوست، وہی شہر، مگر اب نظر بدل گئی تھی، ترجیحات بدل گئی تھیں۔ اب وہ اپنے اندر ایک مقصد محسوس کرتا تھا—دین کا علم حاصل کرنا، اسے پھیلانا، اور خود کو ایک بہتر انسان بنانا۔
اکثر وہ اپنے جیسے الجھے ہوئے نوجوانوں کے ساتھ بیٹھتا، ان کی باتیں سنتا، انہیں محبت سے گلے لگاتا، اور کہتا، "میں تمہاری جگہ تھا، میں نے بھی ان راستوں کو چکھا ہے، لیکن ان کے آخر میں صرف اندھیرے ہیں۔ آؤ ایک بار اللہ سے دوستی کر کے دیکھو، وہ کبھی چھوڑتا نہیں۔" اور یہ انداز، یہ لہجہ، یہی سادہ دعوت، دلوں کو چھونے لگی۔
فہد کی کہانی ہزاروں فہدوں کی کہانی ہے۔ جنہیں آج جدیدیت کے نام پر بے مقصدیت کا زہر پلایا جا رہا ہے۔ مگر جب ایک مخلص دل اپنے رب کو ڈھونڈتا ہے، تو رب اسے راستہ ضرور دکھاتا ہے۔ اصل ضرورت بس ایک چمکتے ہوئے دل کی ہے، ایک ایسے لمحے کی جس میں انسان خود سے سچ بولے، اور سچ یہ ہے کہ دنیا کے شور میں سب کچھ ملتا ہے، سوائے اصل سکون کے۔ اور وہ سکون صرف اللہ کے ذکر میں ہے۔
فہد آج بھی کبھی کسی پارک میں بیٹھا، یا کسی کیفے میں نوجوانوں سے بات کرتا ہے، ان کی سنجیدگی کو لطیف انداز میں چھوتا ہے، اور انہیں صرف ایک بات کہتا ہے، "تمہیں جس چیز کی تلاش ہے، وہ نہ کسی اسکرین میں ہے، نہ شہرت میں، نہ فالوورز میں—وہ تمہارے دل کے اندر ہے، بس تم نے اس پر دھول جمائی ہے۔ آؤ، اسے صاف کریں، آؤ اسلام کو دل سے جئیں، صرف نام سے نہیں۔"
اسی انداز میں تبدیلی آتی ہے، خاموش، مہربان، اور دل سے۔ اور یہی انداز آج کے نوجوان کی ضرورت ہے۔