مسلمانوں کا علمی و تمدنی ورثہ: ایک تجزیاتی مطالعہ

مسلمانوں کا علمی و تمدنی ورثہ: ایک تجزیاتی مطالعہ

Last Updated: 1 day ago

✍️۔۔۔ شجاع مشتاق/اننت ناگ

 

امت مسلمہ کی تاریخ انسانی تہذیب و تمدن کا ایک ایسا روشن باب ہے جو نہ صرف فکری، ثقافتی، سائنسی اور معاشی ترقی کا مظہر ہے بلکہ روحانی بلندیوں کی ایک شاندار داستان بھی سناتا ہے۔ اسلام نے جب اپنی روشنی پھیلانی شروع کی تو اس کے بنیادی اصولوں میں علم، تحقیق، عدل و انصاف، معاشرتی ہم آہنگی اور ترقی کا ایک جامع تصور شامل تھا۔ قرآن مجید نے بارہا غور و فکر، علم و حکمت اور تدبر پر زور دیا، جبکہ نبی کریم ﷺ نے تعلیم اور علم کی اہمیت کو اس قدر اجاگر کیا کہ جنگی قیدیوں کو محض مسلمانوں کو تعلیم دینے کے عوض آزاد کر دیا جاتا تھا۔ اسی علم دوستی کی بدولت اسلامی تہذیب نے عروج حاصل کیا اور کئی صدیوں تک دنیا کی سب سے بڑی تہذیبوں میں شمار ہوتی رہی۔

ابتدائی اسلامی دور میں مدینہ منورہ ایک ایسا مرکز تھا جہاں معاشرتی، سیاسی، اور علمی انقلاب برپا ہوا۔ خلافت راشدہ کے زمانے میں اسلامی نظامِ حکمرانی میں عدل و انصاف، مساوات، حقوق العباد اور علم و حکمت جیسے اصولوں کو بنیادی حیثیت حاصل تھی۔ جب اسلامی سلطنت نے وسعت اختیار کی تو بغداد، قرطبہ، دمشق اور قاہرہ جیسے شہر دنیا کے علمی، فکری اور ثقافتی مراکز بن گئے۔ ان شہروں میں کتب خانے، دارالحکومت، علمی ادارے اور تحقیقاتی مراکز قائم ہوئے جن میں سائنس، فلسفہ، طب، فلکیات، معاشیات اور سماجی علوم پر حیران کن کام ہوا۔ اسلامی تہذیب کا یہ وہ دور تھا جب مسلمان دنیا کی سب سے ترقی یافتہ قوم بن چکے تھے اور ان کی علمی و سائنسی خدمات کی بدولت مغربی دنیا نے بھی ترقی کی منازل طے کیں۔

مسلمان مفکرین اور سائنسدانوں نے ایسے علمی اصول وضع کیے جو آج بھی جدید سائنس، فلسفے اور معاشرتی علوم میں بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔ الفارابی، ابن سینا، ابن رشد، الخوارزمی، جابر بن حیان، البیرونی اور ابن خلدون جیسے مفکرین نے اپنے اپنے میدانوں میں عظیم کارنامے سر انجام دیے۔ ابن سینا کی کتاب "القانون فی الطب" کئی صدیوں تک یورپ کی یونیورسٹیوں میں طب کی بنیادی کتاب کے طور پر پڑھائی جاتی رہی۔ الخوارزمی نے الجبرا کے اصول متعارف کروائے جن کے بغیر جدید ریاضی کا تصور ممکن نہیں۔ ابن خلدون نے سماجی ارتقاء اور تہذیبوں کے عروج و زوال پر جو نظریات دیے وہ آج بھی سوشیالوجی اور تاریخ کے بنیادی اصولوں میں شمار کیے جاتے ہیں۔ الغرض، مسلمانوں نے علم کے ہر شعبے میں کارہائے نمایاں انجام دیے اور انسانی ترقی میں ایک نمایاں کردار ادا کیا۔

لیکن جب کوئی قوم اپنی علمی، فکری اور تہذیبی بنیادوں سے روگردانی کرتی ہے تو زوال اس کا مقدر بن جاتا ہے۔ امت مسلمہ کے زوال کے عوامل پر غور کیا جائے تو کئی بنیادی اسباب سامنے آتے ہیں۔ سب سے پہلی اور بڑی وجہ فکری جمود اور تخلیقی صلاحیتوں سے دوری ہے۔ ایک وقت تھا جب مسلمان تحقیق و جستجو میں سب سے آگے تھے، لیکن بعد کے ادوار میں تقلید کا رجحان بڑھنے لگا اور اجتہاد کی جگہ جمود نے لے لی۔ علم و تحقیق کی وہ تڑپ جو ابتدائی اسلامی ادوار میں نظر آتی تھی، بعد میں بتدریج کم ہوتی گئی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ مسلمان جدید علمی اور سائنسی ترقی سے پیچھے رہ گئے اور دوسرے اقوام نے اس میدان میں سبقت حاصل کر لی۔

سیاسی انتشار بھی امت مسلمہ کے زوال کی ایک بڑی وجہ ہے۔ خلافت عباسیہ کے زوال کے بعد اسلامی دنیا مختلف ریاستوں میں تقسیم ہو گئی۔ داخلی تنازعات، فرقہ واریت، بادشاہت اور اقتدار کی ہوس نے مسلمانوں کی وحدت کو پارہ پارہ کر دیا۔ سقوطِ بغداد کے بعد اسلامی دنیا ایک طویل مدتی زوال کا شکار ہو گئی اور پھر استعماری قوتوں کی یلغار نے مزید انتشار پیدا کر دیا۔ یورپی استعماری طاقتوں نے مسلم دنیا کو سیاسی، معاشی اور علمی لحاظ سے کمزور کرنے کی پالیسی اختیار کی، اور کئی اسلامی ممالک براہِ راست یا بالواسطہ ان کے زیرِ اثر آ گئے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ امت مسلمہ اپنی علمی، فکری اور معاشی برتری کھو بیٹھی اور دوسروں کی محتاج ہو گئی۔

معاشی زوال بھی ایک بنیادی عنصر ہے جو مسلمانوں کی کمزوری کا باعث بنا۔ ایک دور تھا جب مسلمان تجارت، صنعت و حرفت، زراعت اور اقتصادی میدان میں دنیا کی سب سے بڑی طاقت تھے۔ اسلامی دنیا میں بغداد اور قرطبہ جیسے شہر اقتصادی مراکز کے طور پر جانے جاتے تھے، جہاں دنیا بھر سے تاجر آتے اور اسلامی معیشت کو فروغ ملتا۔ لیکن جب مسلمانوں نے اقتصادی ترقی کے اصولوں کو نظر انداز کیا اور تجارتی و صنعتی میدان میں اپنی برتری کھو دی، تو مغربی اقوام نے اقتصادی میدان میں سبقت حاصل کر لی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ مسلمان معاشی لحاظ سے پسماندگی کا شکار ہو گئے اور عالمی سطح پر ان کا اثر و رسوخ کم ہو گیا۔ آج بھی کئی اسلامی ممالک بیرونی قرضوں اور مغربی معاشی پالیسیوں کے محتاج نظر آتے ہیں، جو امت کی کمزوری کی ایک بڑی علامت ہے۔

اخلاقی اور سماجی اقدار کی زوال پذیری بھی امت مسلمہ کی کمزوری کا ایک اہم سبب ہے۔ جب کسی قوم میں دیانت، عدل، امانت، باہمی اخوت، اور سماجی انصاف جیسی اقدار کمزور ہو جاتی ہیں تو وہ قوم اندرونی طور پر کھوکھلی ہو جاتی ہے۔ قرآن مجید بارہا عدل و انصاف، باہمی محبت، اور حقوق العباد کی اہمیت پر زور دیتا ہے، مگر جب مسلمانوں نے ان اصولوں سے روگردانی کی تو ان کی معاشرتی وحدت بکھرنے لگی۔ کرپشن، اقربا پروری، ناانصافی، فرقہ واریت اور طبقاتی تقسیم جیسے مسائل اسلامی دنیا میں عام ہو گئے، جس کی وجہ سے امت مسلمہ کی اجتماعی طاقت کمزور پڑ گئی۔

لیکن ان تمام اسباب کے باوجود امت مسلمہ کے لیے امید کی کرن ہمیشہ موجود رہی ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ زوال کے بعد عروج کا دروازہ ہمیشہ کھلا رہتا ہے، بشرطیکہ کوئی قوم اپنی حالت سدھارنے کا عزم کرے۔ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ "اللہ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت نہ بدلے" (الرعد: 11)۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ امت مسلمہ اگر دوبارہ اپنی کھوئی ہوئی عظمت حاصل کرنا چاہتی ہے تو اسے خود کو بدلنا ہوگا۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ مسلمان دوبارہ علم و تحقیق کی طرف رجوع کریں، سائنسی ترقی میں اپنا کردار ادا کریں، سیاسی اور معاشی استحکام پیدا کریں، اور سب سے بڑھ کر اپنی اخلاقی و سماجی اقدار کو مضبوط کریں۔

آج کے دور میں امت مسلمہ کو جدید دنیا کے چیلنجز کا سامنا ہے۔ ٹیکنالوجی، گلوبلائزیشن، میڈیا، مصنوعی ذہانت، اور ڈیجیٹل معیشت جیسے عوامل نے دنیا کے معاشی اور سماجی ڈھانچے کو یکسر تبدیل کر دیا ہے۔ اگر مسلمان ان جدید تقاضوں کو سمجھنے میں ناکام رہتے ہیں تو وہ مزید پسماندگی کا شکار ہو سکتے ہیں۔ لہذا ضروری ہے کہ مسلمان اپنی علمی روایت کو زندہ کریں، جدید سائنس اور ٹیکنالوجی میں مہارت حاصل کریں، اور ایک ایسی متوازن حکمت عملی اپنائیں جو اسلامی اصولوں اور جدید ترقی کے تقاضوں میں ہم آہنگی پیدا کرے۔

امت مسلمہ کا مستقبل اس بات پر منحصر ہے کہ وہ اپنے اندرونی تضادات کو کس طرح حل کرتی ہے، اپنی علمی اور سائنسی بنیادوں کو کیسے مضبوط کرتی ہے، اور عالمی سطح پر ایک موثر اور باوقار کردار کیسے ادا کرتی ہے۔ اگر مسلمان دوبارہ اتحاد، علم، تحقیق، عدل و انصاف، اور اخلاقی اقدار کو اپنا لیں تو وہ ایک بار پھر دنیا میں قیادت کا کردار ادا کر سکتے ہیں اور عدل، امن اور ترقی کی روشنی پھیلا سکتے ہیں۔