مریض کا روزہ

مریض کا روزہ

Last Updated: 4 days ago

ماخوذ  از:  سبعون مسألة في الصيام

١)  ہر وہ بیماری جس کی وجہ سے انسان صحت کی حالت سے خارج ہو جائے، اس کے لیے روزہ چھوڑنا جائز ہے۔ لیکن ہلکی پھلکی تکالیف، جیسے کھانسی یا سر درد، کی وجہ سے روزہ چھوڑنا جائز نہیں۔ اگر طبی طور پر ثابت ہو، یا انسان اپنی عادت اور تجربے سے جانتا ہو، یا غالب گمان ہو کہ روزہ رکھنے سے بیماری لاحق ہو جائے گی، یا بیماری بڑھ جائے گی، یا صحت یاب ہونے میں تاخیر ہو جائے گی، تو ایسے شخص کے لیے روزہ چھوڑنا جائز ہے، بلکہ روزہ رکھنا مکروہ ہوگا۔

٢)  اگر روزہ رکھنے سے کسی کو بے ہوشی طاری ہو جائے تو اسے روزہ توڑ دینا چاہیے اور بعد میں اس کی قضا کرنی ہوگی۔ اگر دن کے دوران بے ہوشی طاری ہوئی لیکن غروبِ آفتاب سے پہلے یا بعد میں ہوش آ گیا، تو اس کا روزہ درست ہوگا، بشرطیکہ اس نے صبح روزہ رکھا ہو۔ لیکن اگر فجر سے لے کر مغرب تک مسلسل بے ہوشی رہی، تو جمہور علماء کے نزدیک اس کا روزہ صحیح نہیں ہوگا۔ جہاں تک بے ہوش شخص کے قضا کرنے کا تعلق ہے، تو جمہور علماء کے نزدیک قضا لازم ہے، چاہے بے ہوشی کی مدت کتنی ہی طویل ہو۔

٣)  اگر کوئی شخص شدید بھوک یا پیاس سے اتنا نڈھال ہو جائے کہ اسے اپنی جان جانے یا کسی حس کے زائل ہونے کا اندیشہ ہو، تو وہ روزہ توڑ سکتا ہے اور بعد میں اس کی قضا کرے گا۔ سخت مشقت والے پیشے اختیار کرنے والوں کے لیے روزہ چھوڑنا جائز نہیں، لیکن اگر کام چھوڑنا ان کے لیے نقصان دہ ہو اور روزہ رکھنے سے ان کی جان کو خطرہ ہو، تو وہ روزہ چھوڑ سکتے ہیں اور بعد میں قضا کریں گے۔ البتہ امتحانات کی وجہ سے روزہ چھوڑنا جائز نہیں ہے۔

٤)  وہ مریض جس کے صحت یاب ہونے کی امید ہو، اسے چاہیے کہ صحت یابی کے بعد روزے کی قضا کرے، فدیہ (کھانا کھلانا) کافی نہیں ہوگا۔ لیکن وہ مریض جو دائمی بیماری میں مبتلا ہو اور صحت یابی کی امید نہ ہو، اسی طرح بوڑھا شخص جو روزہ رکھنے پر قادر نہ ہو، تو وہ ہر دن کے بدلے میں ایک مسکین کو نصف صاع (تقریباً 1.5 کلو) کھانا کھلائے۔

٥)  اگر کوئی شخص بیمار ہو گیا اور بعد میں صحت یاب ہو کر قضا کرنے پر قادر تھا، لیکن اس نے قضا نہیں کی اور وفات پا گیا، تو اس کے ترکے سے ہر روزے کے بدلے میں ایک مسکین کو کھانا کھلایا جائے گا۔ اگر اس کا کوئی قریبی رشتہ دار اس کی طرف سے روزے رکھنا چاہے، تو ایسا کرنا درست ہوگا۔