
مولوی کو پوپ پر محمول کرنا
محسن خان
"مولوی" پر تنقید ایک ایسا رجحان ہے جو آج کے دور میں شدت اختیار کر گیا ہے، خصوصاً ان حلقوں میں جو مغربی فکر سے متاثر ہیں یا مذہب سے ایک مخصوص بیزاری رکھتے ہیں۔ ان حضرات کی ایک عمومی روش یہ ہوتی ہے کہ وہ اسلام کے علمی طبقے یعنی "مولوی" کو عیسائی دنیا کے مذہبی پیشوا یعنی "پوپ" پر قیاس کرتے ہیں۔ گویا مولوی بھی پوپ کی طرح مذہب پر اجارہ داری رکھتا ہے، عقلی و فکری آزادی کا دشمن ہے اور جدید ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ یہ طرزِ فکر محض سادہ لوحی نہیں بلکہ ایک بنیادی مغالطے کا مظہر ہے۔
عیسائیت، خصوصاً کیتھولک روایت میں، پوپ کو مذہب کا واحد مجاز نمائندہ اور خطا سے مبرا (Infallible) سمجھا جاتا ہے۔ پوپ کی رائے کو حتمی حیثیت حاصل ہوتی ہے اور عام فرد کو بائبل کی تعبیر کا اختیار نہیں ہوتا۔چرچ کی اجازت کے بغیر مذہبی فہم یا عمل ممکن نہیں۔جیسا کہ نظامِ پاپائیت کی پوری تاریخ میں اس کی مثالیں دیکھی جاسکتی ہیں۔ اس کے برعکس اسلام کی بنیادی تعلیم یہ ہے کہ قرآن و سنت سب کے لیے ہیں، اور ہر مسلمان ان سے رہنمائی لے سکتا ہے۔ علماء اور فقہاء دین کے شارح اور رہنما ہیں، اجارہ دار یا خدا کے نمائندہ نہیں۔ ان کا قول، قرآن و سنت کی روشنی میں قابلِ فہم اور قابلِ نقد ہوتا ہے۔
اسلامی تاریخ میں فقہ، کلام، تفسیر، حدیث اور تصوف کی بے شمار متنوع روایتیں موجود ہیں، جو اس بات کی غمازی کرتی ہیں کہ اسلام میں فکری و علمی آزادی کو ہمیشہ گنجائش حاصل رہی ہے۔ اگر "مولوی" واقعی پوپ ہوتا تو نہ چار فقہی مذاہب وجود میں آتے، نہ اہل الحدیث، نہ اہل الرائے، نہ متکلمین، نہ صوفیہ، نہ مصلحین۔ اسلام کی غیرمرکزی دینی ساخت ہی اس کی قوت ہے، جس میں دلیل، اجتہاد اور تنوعِ رائے کو احترام کے ساتھ جگہ دی جاتی ہے۔
آج جو لوگ مولوی پر تنقید کرتے ہیں، ان میں سے اکثر کا مسئلہ خود مولوی نہیں ہوتا، بلکہ دین ہوتا ہے۔ انہیں قرآن کی آیات میں حدود کا ذکر کھٹکتا ہے، سنتِ نبوی کی عملی حیثیت تکلیف دیتی ہے، اور شریعت کی اجتماعی اہمیت سے انکار کرتے ہیں۔ مگر براہِ راست دین پر تنقید کرنا خطرناک یا غیر مقبول سمجھا جاتا ہے، اس لیے وہ "مولوی" کا سہارا لیتے ہیں تاکہ دین پر تنقید کا ایک "محفوظ" راستہ نکل آئے۔ مولوی کی زبان، لباس یا اندازِ بیان کو بہانہ بنا کر پورے دینی علم اور اس کے ورثاء کو متروک ٹھہرانا نہ صرف غیرمنصفانہ ہے بلکہ تعصب کا نتیجہ بھی ہے۔
اس سب کے باوجود یہ کہنا بھی درست نہیں کہ مولوی یا علماء ناقابلِ نقد ہیں۔ ہر انسان غلطی کا امکان رکھتا ہے اور علماء بھی اس سے مستثنیٰ نہیں۔ اگر کسی عالم سے غلطی ہو تو اس پر دلیل سے بات کی جائے، اصلاح کی کوشش ہو، تنقید ہو تو تعمیری اور علمی ہو، نہ کہ مغربی فکری سانچوں میں ڈال کر پوری علمی روایت کو مسترد کر دیا جائے۔
اسلام ایک زندہ، متحرک اور معقول دین ہے، جس میں علمی روایت صدیوں سے پنپ رہی ہے۔ مولوی اس روایت کا محافظ ہے، نہ کہ اجارہ دار۔ اسے پوپ پر محمول کرنا صرف تاریخی بدفہمی نہیں بلکہ بددیانتی بھی ہے۔ اگر معاشرے کو آگے لے جانا ہے تو دین اور اس کے نمائندوں کو سمجھ کر، مکالمہ کر کے، اور اصلاح کے جذبے سے پیش آنا ہوگا۔ بصورتِ دیگر، تنقید برائے تنقید ہمیں صرف فکری انتشار دے گی، حقیقی اصلاح نہیں۔
یہ وقت ہے کہ ہم علمی روایت کا منصفانہ جائزہ لیں، اس کے خلاف مغربی استعماری بیانیے کو پہچانیں، اور دین کے خادموں کو ان کے اصل مقام پر رکھ کر ان سے مکالمہ کریں، نہ کہ انہیں پوپ سمجھ کر طعن و تشنیع کا نشانہ بنائیں۔