
میں کیوں بدنام ہوں اپنی شہر میں؟
شجاع مشتاق
جب انسان یہ سوال خود سے کرتا ہے کہ "میں کیوں بدنام ہوں اپنی شہر میں؟" تو اس کا جواب فقط لوگوں کے طرزِ عمل یا زبانوں میں نہیں، بلکہ خود اپنی ذات کے محاسبے میں چھپا ہوتا ہے۔ اسلامی تعلیمات اسی ذاتی محاسبے کو زندگی کا ایک لازمی حصہ قرار دیتی ہیں، کیونکہ سچائی یہ ہے کہ انسان کا باطن اگر نکھرا ہوا ہو تو دنیا کا بغض و تعصب بھی اس کی روشنی کو دھندلا نہیں کر سکتا۔ لیکن اگر باطن میں میل ہو، تو شہرت، مال و دولت، حتیٰ کہ علم بھی بدنامی کو چھپا نہیں سکتے۔
قرآن ہمیں بارہا متوجہ کرتا ہے کہ بدگمانی، غیبت، الزام تراشی، اور دوسروں کی عزت کو بازیچہ بنانے سے بچو، کیونکہ یہ اعمال نہ صرف دوسروں کو مجروح کرتے ہیں بلکہ انجام کار خود انسان کی اپنی ساکھ کو داغ دار کر دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
"یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ…"
(سورۃ الحجرات: 12)
اے ایمان والو! بہت زیادہ گمان سے بچو، بلاشبہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں۔
یہ تعلیم ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ سماج میں کسی کے متعلق رائے قائم کرنے سے پہلے خود احتسابی ضروری ہے۔ اور اگر کوئی فرد یہ شکایت کرتا ہے کہ وہ اپنے ہی شہر میں بدنام ہے، تو اس کے لیے دو راستے ہیں: یا تو وہ ظلم کا شکار ہے اور صبر کے راستے پر ثابت قدم رہے، یا اس کی اپنی کوتاہیاں اس کے خلاف دلیل بن چکی ہیں۔
رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے:
"المُسلِمُ مَن سَلِمَ المُسلِمونَ مِن لِسانِهِ وَيَدِهِ"
مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔
(صحیح البخاری)
بدنامی اکثر زبان کے فتنے، جھوٹ، الزام، یا دوسروں کو نیچا دکھانے کی کوشش کا نتیجہ ہوتی ہے۔ اسلام ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ عزت کسی ظاہری لقب یا لبادے سے نہیں، بلکہ تقویٰ سے ملتی ہے۔ اگر انسان اپنی نیت، زبان اور عمل کو اللہ کے حکم کے تابع رکھے تو بدنامی اس کے قدموں کی خاک بن جاتی ہے۔
اگر میں اپنی بدنامی پر افسوس کرتا ہوں تو مجھے چاہیے کہ میں تنہائی میں بیٹھ کر اپنے نفس سے سوال کروں:
کیا میں نے کبھی کسی کی عزت کو مجروح کیا؟
کیا میں نے سچائی کو چھوڑ کر جھوٹ یا منافقت کا راستہ اپنایا؟
کیا میری موجودگی دوسروں کے لیے رحمت تھی یا زحمت؟
کیا میں نے اللہ کے حقوق کے ساتھ ساتھ بندوں کے حقوق کا بھی خیال رکھا؟
اسلامی معاشرت میں بدنامی کو صرف ایک سماجی مسئلہ نہیں بلکہ روحانی آزمائش مانا گیا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے: "اپنے نفس کا احتساب کرو قبل اس کے کہ تمہارا حساب لیا جائے۔" یہ وہ بصیرت ہے جو انسان کو بدنامی سے نہیں، بلکہ حقیقی عروج کی طرف لے جاتی ہے۔
ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ معاشرے کی زبان اکثر ظالم ہوتی ہے۔ نیک لوگوں پر الزامات لگانا، ان کا مذاق اُڑانا اور ان کی نیت پر شک کرنا، یہ سب شیطانی چالوں میں شامل ہے۔ حضرت مریمؑ پر جب قوم نے تہمت لگائی، تو ان کے صبر و سکوت نے اللہ کی مدد کو دعوت دی۔ اسی طرح حضرت یوسفؑ کی بدنامی، درحقیقت ان کے درجات کی بلندی کا ذریعہ بنی۔
لہٰذا اگر آپ بدنامی کے طوفان میں گھرے ہوئے ہیں، تو گھبرائیں نہیں۔ خاموشی، صبر، دعا، اور کردار کی سچائی وہ چار ستون ہیں جن پر عزت کا قلعہ تعمیر ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن میں وعدہ فرماتا ہے:
"وَاللَّهُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِینَ"
اور اللہ نیکی کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ (البقرہ: 195)
خلاصہ یہی ہے کہ بدنامی کا سوال دراصل ہمیں کردار کی گہرائی میں جھانکنے کا موقع دیتا ہے۔ اگر ہم ظالم ہیں، تو توبہ کریں؛ اگر مظلوم ہیں، تو صبر کریں؛ اگر غلط سمجھے گئے ہیں، تو وضاحت سے زیادہ خاموشی کو اختیار کریں۔ کیونکہ آخرکار عزت دینے والا اللہ ہے، اور جو اللہ کے ہاں معزز ہو، دنیا کی بدنامی اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔
"میں کیوں بدنام ہوں اپنی شہر میں؟" — اس سوال کا جواب نہ صرف میرے اعمال میں پوشیدہ ہے بلکہ میری اصلاح کے امکانات میں بھی۔ اور یہی وہ سوچ ہے جو انسان کو فانی شہرت سے نکال کر ابدی عزت کی طرف لے جاتی ہے۔