ماہ رمضان: انتہاؤں کے درمیان اعتدال کی راہ

ماہ رمضان: انتہاؤں کے درمیان اعتدال کی راہ

Last Updated: 1 day ago

✍️__میر ذاکر/ کوکرناگ، اننت ناگ، کشمیر

 

انسانی زندگی پر روزہ سے دو طرح کے اثرات مرتب ہوتے ہیں:

ایک جسمانی

دوسرے روحانی

انسان نے جب جب الہامی ہدایات سے منہ موڑا تو جسمانی اور روحانی مطالبات پورا کرنے میں وہ ہمیشہ افراط و تفریط کا شکار ہوا اور انتہاؤں نے اس کو اپنے بے رحم جبڑوں میں دبوچ لیا۔ جب رسولِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوتِ حق کا آغاز کیا تو آج کی طرح، اس وقت کا معاشرہ بھی انسان، کائنات اور مقصد زندگی کے حوالے سے ان ہی دو انتہاؤں پر تھا۔ ایک خیال یہ تھا کہ زندگی تو گردش ایام کی الٹ پھیر کا نام ہے۔ یہ کائنات اور اس کے تمام اجزاء ایک میکینکل گھڑی کی طرح ہے جو خود بہ خود حرکت کر رہے ہیں۔ کائنات کی ہر چیز خود بہ خود پیدا ہوتی ہے اور اپنی طبعی عمر مکمل کر کے فنا کی گھاٹ اتر جاتی ہے۔ اس نظریہ کا نقشہ قرآن ان الفاظ میں کھینچتا ہے ؛

ترجمہ:

یہ لوگ کہتے ہیں کہ ”زندگی بس یہی ہماری دنیا کی زندگی ہے ، یہیں ہمارا مرنا اور جینا ہے اور گردشِ ایام کے سوا کوئی چیز نہیں جو ہمیں ہلاک کرتی ہو۔ درحقیقت اِس معاملہ میں اِن کے پاس کو ئی علم نہیں ہے۔ یہ محض گمان کی بنا پر یہ باتیں کرتے ہیں۔" (الجاثیہ)

ایسے لوگوں کا مقصد وحید بس ' بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست' ہوتا ہے۔ یہ لوگ چوپایوں کی طرح محض شکم پروری اور ہوس کی تسکین کو متاعِ زیست سمجھتے ہیں۔ ایسے لوگ اور ان لوگوں سے بنا ہوا معاشرہ درندوں کا اکھاڑا ہوتا ہے جہاں 'جس کی لاٹھی اس کی بھینس ' کا سکہ چلتا ہے۔ اپنی اصل کے اعتبار سے ایسا معاشرہ اور اس میں پلنے والا انسان کسی اعلیٰ مقصد سے عاری ہوتے ہیں۔ ان کی نظر میں حق وہی ہے جس سے ان کو فایدہ پہنچے اگرچہ اس سے دوسرے لوگوں کا نقصان ہی کیوں نہ ہو۔ حلال و حرام کا پیمانہ اپنی نسلی و قومی تعصب کے مطابق طے کرتے ہیں۔ یہ آشفتہ سر اپنی خواہشات کے قفس میں ایسے اسیر ہوتے ہیں جسے کہ دنیا کی چند روزہ رونقوں سے ان کی آنکھیں چندھیا جاتی ہیں:

ترجمہ:

 اور کفر کرنے والے بس دنیا کی چند روزہ زندگی کے مزے لوٹ رہے ہیں، جانوروں کی طرح کھا پی رہے ہیں، اور ان کا آخری ٹھکانہ جہنم ہے۔ (سورہ محمد)

 اخلاقیات اور آفاقی قدروں کی پامالی ایسے لوگوں کا طرہ امتیاز ہوتا ہے۔ جرم و تغیان ان کی کوکھ میں پالتو بچے کی طرح پھلتا پھولتا ہے۔ رقس و سرور، مخرب الاخلاق اعمال، بے قید لذت اور حیا سوز نمائشوں کے ذریعے وہ قوانین فطرت اور خالق کائنات کے باغی ہو جاتے ہیں۔ یہ لوگ 'حاضر و موجود' کے قفس میں قید ہوتے ہیں اور اس سے ماوراء اعلیٰ و ارفع نصب العین کو در خور اعتناء نہیں سمجھتے۔ اس نظریہ کے حامل لوگوں سے جو معاشرہ جنم لیتا ہے وہ کثافتوں سے لت پت اور گھٹن سے لب ریز ہوتا ہے۔ کیوں کہ یہ لوگ خواہشات کے غلام ہوتے ہیں اسی لئے وہ اللہ کی عظمت سے بے خبر ہوتے ہیں۔ ان کی خواہشات انہیں زندگی کی اعلیٰ حقیقتوں اور قدروں کی طرف سے غافل بنا دیتی ہیں۔ اسی لئے بھرا پڑا پیٹ اللہ کی نظر میں مبغوض ہے کیوں کہ اس سے تساہل اور غفلت کا نشہ تاری ہوتا ہے۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ ایسا معاشرہ جب فاسقانہ اور باغیانہ روش میں انتہا کو پہنچ جاتا ہے تو اللہ کی لاٹھی حرکت میں آجاتی ہے اور چشم زدن میں ان کی پر شکوہ بستیاں اور فلق بوس عمارات زمین دوز ہوجاتی ہیں۔ 

ترجمہ:

جب ہم کسی بستی کو ہلاک کرنے کا ارادہ کرتے ہیں تو اس کے خوشحال لوگوں کو حکم دیتے ہیں اور وہ اس میں نافرمانیاں کرنے لگتے ہیں، تب عذاب کا فیصلہ اس بستی پر چسپاں ہو جاتا ہے اور ہم اسے برباد کر کے رکھ دیتے ہیں۔(الاسراء)

امام شافعی کا قول ان پر بالکل صادق آتا ہے؛ 

"جن لوگوں کا نظریہ دنیا میں محض شکم سیری ہوتا ہے ان کی قدر و قیمت بھی وہی کچھ ہوتی ہے جو ان کے پیٹ سے خارج ہوتا ہے۔"

دوسرا نظریہ ان لوگوں کا ہے جو سلیم الفطرت تو ہوتے ہیں لیکن صحیح رہنمائی نہ ملنے کی وجہ سے وہ دوسری انتہا کو پہنچ جاتے ہیں اور رہبانیت کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا دیتے ہیں۔ ایسے نیک لوگوں نے جب بے خدا مادی معاشرے کے پودے سے پھوٹنے والے زہریلے کانٹوں کو دیکھا تو وہ سہم گئے۔ انہوں نے دنیا اور اس کی نعمتوں پر لعنت بھیج کر جنگلوں کی راہ لی اور سب کچھ نروان کے پیچھے تیاگ دیا۔جبکہ اللہ کا واضح حکم تھا کہ؛

ترجمہ؛

 'اور رہبانیت انہوں نے خود ایجاد کر لی، ہم نے اُسے اُن پر فرض نہیں کیا تھا، مگر اللہ کی خوشنودی کی طلب میں انہوں نے آپ ہی یہ بدعت نکالی اور پھر اس کی پابندی کرنے کا جو حق تھا اسے ادا نہ کیا۔'(الحدید)

ان کی نظر میں خدا کا قرب حاصل کرنے کا واحد راستہ دنیاؤں آسائشوں سے دوری قرار پائی۔ یہ لوگ دنیا سے بے تعلق رہنے میں ہی حقیقی فلاح و کامرانی کا زینہ سمجھتے ہیں۔انہوں نے ریاضتوں اور مراسم کا ایسا نظام تیار کیا جس سے خوفناک برائیوں نے جنم لیا۔ ان کا فلسفہ حیات قلت طعام، قلت کلام اور قلت منام جیسے فرسودہ نظریہ پر قائم ہے۔ جبکہ اسلام نے ان چیزوں میں درمیانی رویہ اپنانے کی تلقین کی ہے۔ اللہ کی عطا کردہ پاکیزہ چیزوں اور زیب و زینت کو یہ اپنے اوپر حرام کرتے ہیں۔

قرآن کہتا ہے؛

اے محمد ؐ ، اِن سے کہو کس نے اللہ کی اُس زینت کو حرام کر دیا ہے جسے اللہ نے اپنے بندوں کے لیے نکالا تھا اور کس نے خدا کی بخشی ہوئی پاک چیزیں کو ممنوع کر دیا؟ کہو، یہ ساری چیزیں دنیا کی زندگی میں بھی ایمان لانے والوں کے لیے ہیں، اور قیامت کے روز تو خالصتًہ انہی کے لیے ہوں گی۔ (اعراف)

روزہ اور تہذیب نفس:

ماہ رمضان بڑی فضیلت اور برکت والا مہینہ ہے۔ اس کی عظمت اس بات سے دو چند ہوجاتی ہے کہ اس میں پوری انسانیت کے لئے دستور زندگی یعنی القرآن نازل ہوا ہے۔ شائد اسی وجہ سے اس مہینے کے روزے فرض قرار دیئے گئے۔ یہ محض ایک مہینے کی مشق نہیں کہ پھر انسان شتر بے مہار ہو جائے۔ بلکہ اس تربیتی کورس کا تقاضا یہ ہے کہ باقی گیارہ مہینے بھی قرآن کے سانچے میں ڈھل جائے۔

روزے کے لئے عربی میں 'صوم' کا لفظ آتا ہے جس کے معنی کسی کام سے رک جانے کے ہیں۔ روزے میں انسان صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک، کھانے پینے، جائز جنسی خواہشات، ہر گناہ اور ناپسندیدہ طرز عمل سے رکتا ہے۔ اس کے علاؤہ رات کو قیام کر کے آرام و طرب سے بھی باز رہتا ہے۔ 

انسانی وجود کے تین داعیات بڑے منہ زور ہیں۔ کھانا پینا، آرام و آسائش اور جنسی خواہش۔ یہ ایسی خواہشات ہیں جو جانوروں اور انسانوں میں مشترکہ طور پر پائی جاتی ہے۔ اگر ان کو بے خدا مادی نظریہ کے مطابق بے قید چھوڑا جائے تو انسان کی زندگی جانوروں کی سطح پر آئے گی۔ اور اگر ان کو راہبانہ تصور کے مطابق مکمل طور پر دبایا یا کچلا جائے تو انسانی شخصیت کو نکھرنے اور نشوونما کا موقع نہیں ملے گا۔ یہ دونوں نظریات اپنے اندر بنیادی سقم رکھتے ہیں۔ جس پر کوئی ارفع و اعلیٰ تہذیب کی بنیاد رکھنا محال ہے۔ اسلام ایک عادلانہ نظریہ حیات ہے جو عبادات کے ذریعے زندگی کے مختلف شعبوں کی تعمیر و تشکیل کرتا ہے۔ ماہ رمضان اپنے مقصد اور نظام تربیت کے لحاظ سے ایک منفرد مقام رکھتا ہے۔ شریعت کا کوئی بھی حکم ایسا نہیں جو اپنے اندر حکمتوں کا خزانا نہ رکھتا ہو اگرچہ ظاہر بیں نگاہیں ان حکمتوں کو بھانپ نہیں پاتی۔ نفس ایک منہ زور گھوڑا ہے اس کو قابو میں رکھنا ہمت اور صبر آزما کام ہے۔ اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ نہ اس کو بے لگام چھوڑا جائے اور نہ مکمل طور پر ختم کیا جائے بلکہ اس کو تہذیب و شائستگی سے آراستہ کیا جائے۔ تعذیب نفس کے بجائے ضبط نفس پر توجہ دی جائے۔ ان دو انتہاؤں کے درمیان اعتدال و توازن قائم کرنا رمضان کا مقصد ہے۔ عرب روزہ کے جسمانی فوائد سے بخوبی واقف تھے اور وہ روزوں کے ذریعے اپنے آپ کو اور اپنے گھوڑوں کو جنگ اور دیگر مشکل حالات کے لیے تیار کرتے تھے۔ البتہ اس کے روحانی فوائد یعنی تقوی، ضبط نفس اور غریبوں سے حسن سلوک جیسے فوائد سے ناواقف تھے۔

بقول سید سلیمان ندوی ؛ " اسلام کا مقصد نفوس انسانی کا تزکیہ، اخلاق کی تہذیب اور اصلاح و تربیت ہے۔ یہی روح اسلام کی فرض کردہ ہر عبادت میں جلوہ گر ہے۔ روزہ کا مقصد ہی یہ ہے کہ انسانی نفوس کا مادی، روحانی اور اخلاقی لحاظ سے تزکیہ کیا جائے۔ تاکہ اس کے اندر اس مشق کے ذریعے ملکوتی صفات پیدا ہوں۔" چونکہ روزہ کے ذریعے انسان کے اندر ضبط نفس اور تقوی کی کیفیت پیدا ہوتی ہے جو ماہ رمضان کا اصل مقصود ہے۔ انسان کو زندگی میں قدم قدم پر خاردار جھاڑیوں سے واسطہ پڑتا ہے اور ان جھاڑیوں سے بغیر اپنے دامن کو الجھائے، بچ کر نکلنے کا نام تقوی ہے۔ یہ دنیا شرک و بدعات، ظلم و عدوان، کینہ، حسد، جھوٹ، فریب، حرص و ہوس، دھوکہ دہی جیسے لامتناہی خاردار جھاڑیوں سے بھری پڑی ہے۔ ان سے بچ کر اور سنبھل کر اللہ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق زندگی بسر کرنا تقوی ہے۔ تقوی ایک روشنی ہے جس سے انسان کی روح منور ہو جاتی ہے اور تمام تاریکیاں اور جہالتیں چھٹ جاتی ہیں۔ 

اسلامی نظریہ حیات دین و دنیا کی تفریق کا قائل نہیں ہے بلکہ ان کے درمیان وحدت کا قائل ہے۔ اسلام دنیا کو تحسین کی نگاہ سے دیکھتا ہے کیونکہ یہ رضائے الٰہی کے حصول کا ذریعہ ہے۔اسلام تصور رہبانیت کی نفی کرتا ہے۔ مسلمان کا نصب العین تسخیر کائنات اور احتساب کائنات ہے۔ مسلمان وہ ہیں جس کے سر پر قرآن کا تاج ہو، دائیں ہاتھ میں دین اور بائیں ہاتھ میں دنیا ہو۔ اسلام زندگی سے فرار کا نہیں زندگی کی تعمیرکا حکم دیتا ہے۔ دنیا کو منزل نہیں نشان منزل قرار دیتا ہے۔ آفاق میں گم ہونے سے خبردار کرتا ہے۔ مادی وسائل گناہوں کی ڈھیر نہیں کہ ان سے تقویٰ اختیار کیا جائے بلکہ تقویٰ یہ ہے کہ مادی وسائل کو اخلاقی اور روحانی مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کیا جائے اور غائب (آخرت) کو حاضر (دنیا) کے مقابلے میں ترجیح دی جائے۔ اسلام میں ترجیحی تصور تو ہے لیکن دنیا سے منہ موڑنے کا تصور نہیں۔ اسی نظریہ کو ماہ رمضان بالیدگی بخشتا ہے جس کو اگر اپنے صحیح اسپرٹ کے ساتھ برتا جائے تو صالح اور انسان دوست تہذیب وجود میں آسکتی ہے۔

 

یہ ہے دامن یہ ہے گریباں آؤ کوئی کام کریں 

موسم کا منہ تکتے رہنا کام نہیں دیوانوں کا