
ليلة النصف من شعبان
شجاع مشتاق/ اننت ناگ
چند روز قبل میں نے برادر ڈاکٹر سہیل شوقین کی ایک پوسٹ ملاحظہ کی، جس میں انہوں نے اس کتابچے کے مطالعے کی ترغیب دی۔ جب میں نے اس کا مطالعہ کیا تو مجھے حیرت ہوئی کہ میں اس اہم کتاب سے لاعلم تھا۔ اس قیمتی سفارش کا سہرا برادر سہیل شوقین کے سر جاتا ہے، جنہوں نے ہمیں اس مفید کتاب سے روشناس کرایا۔
ڈاکٹر عبد الإله العرفج کی کتاب ليلة النصف من شعبان ایک تحقیقی شاہکار ہے جو شبِ برات کی حقیقت، اس کے فضائل، اور اس پر پائے جانے والے اختلافات کا علمی جائزہ پیش کرتی ہے۔ یہ کتاب روایت، درایت، فقہ اور اصولِ حدیث کے امتزاج پر مبنی ہے، جس میں مصنف نے تحقیقی اسلوب اپناتے ہوئے اس مسئلے کو ہر پہلو سے جانچنے کی کوشش کی ہے۔ کتاب کے آغاز میں مصنف اس بات پر روشنی ڈالتے ہیں کہ کچھ فقہی مسائل ایسے ہیں جو ہر سال ایک مخصوص وقت پر ابھر کر سامنے آتے ہیں اور شبِ برات بھی انہی میں سے ایک ہے۔ یہ ایک ایسا موضوع ہے جس پر ہر سال علمی اور عوامی حلقوں میں بحث و مباحثہ ہوتا ہے، اور بعض اوقات اس میں سخت رویہ اور شدت پسندی بھی در آتی ہے۔ مصنف اس پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ یہ محض ایک فقہی اختلافی مسئلہ ہے جس پر امت میں ہمیشہ سے مختلف آرا پائی جاتی ہیں۔
مصنف نے قرآن کی بعض آیات کو بنیاد بنا کر یہ ثابت کیا ہے کہ دین میں اصل چیز وحدت اور اتفاق ہے نہ کہ ایسے مسائل کو بنیاد بنا کر فرقہ واریت کو ہوا دینا۔ وہ قرآن کی اس آیت کا حوالہ دیتے ہیں: ﴿إِنَّ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا لَسْتَ مِنْهُمْ فِي شَيْءٍ﴾ (الأنعام: 159)، جس کا مفہوم یہ ہے کہ جن لوگوں نے اپنے دین کو گروہوں میں بانٹ دیا اور فرقہ بندی اختیار کرلی، ان سے رسول اللہ ﷺ کا کوئی تعلق نہیں۔ اسی طرح، ایک اور آیت ﴿وَلَا تَكُونُوا مِنَ الْمُشْرِكِينَ ٭ مِنَ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا﴾ (الروم: 31-32) کے ذریعے یہ ثابت کیا گیا ہے کہ دین کو ٹکڑوں میں بانٹنا کسی بھی صورت میں قابلِ تحسین نہیں، بلکہ یہ تفرقہ اور اختلاف ہی امت کی کمزوری کا سبب بنتے ہیں۔ مصنف اس آیت کو شبِ برات کے مسئلے سے جوڑ کر یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ اس مسئلے میں بھی اعتدال اور رواداری اختیار کرنی چاہیے، نہ کہ ایک دوسرے پر شدت اختیار کرتے ہوئے تکفیر اور تضلیل کا رویہ اپنانا چاہیے۔
کتاب میں شبِ برات کے حوالے سے پیش کی جانے والی مشہور حدیث کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے، جو مختلف طرق سے مروی ہے: "يَطَّلِعُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ إِلَى خَلْقِهِ لَيْلَةَ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ، فَيَغْفِرُ لِجَمِيعِ خَلْقِهِ، إِلَّا لِمُشْرِكٍ أَوْ مُشَاحِنٍ"، جس کا مفہوم ہے کہ اللہ تعالیٰ شبِ برات کو اپنی مخلوق پر نظر فرماتا ہے اور تمام بندوں کو بخش دیتا ہے، سوائے مشرک اور کینہ رکھنے والے کے۔ مصنف نے اس حدیث کے تمام طرق کو تفصیل سے بیان کرتے ہوئے اس کے صحت و ضعف پر تحقیقی تجزیہ کیا ہے۔ حضرت معاذ بن جبلؓ، حضرت عبداللہ بن عمروؓ، حضرت ابوبکر صدیقؓ اور حضرت ابوثعلبہ خشنیؓ سے مروی مختلف روایات کا ایک محدثانہ مطالعہ پیش کیا گیا ہے جس میں ہر حدیث کی سند پر بحث کی گئی ہے اور اس کے راویوں کی حیثیت کو بیان کیا گیا ہے۔
مصنف نے واضح کیا ہے کہ شبِ برات کے فضائل پر اختلاف کی بنیادی وجہ روایات کی اسنادی حیثیت اور ان کی درایت میں پائے جانے والے فرق ہیں۔ بعض محدثین ان احادیث کو حسن یا صحیح قرار دیتے ہیں، جب کہ بعض انہیں ضعیف یا غیر مستند سمجھتے ہیں۔ اس حوالے سے امام ابن تیمیہؒ کا ایک قول نقل کیا گیا ہے: "ليس أحد من الأئمة المقبولين عند الأمة يقصد مخالفة رسول الله ﷺ في شيء من سنته، دقيقها وجليلها"، یعنی امت کے کسی بھی مقبول امام کا مقصد یہ نہیں ہوتا کہ وہ رسول اللہ ﷺ کی سنت کی مخالفت کرے، خواہ وہ سنت معمولی ہو یا بڑی۔ اس قول سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جو فقہی اختلافات امت میں پائے جاتے ہیں، وہ کسی بدنیتی پر مبنی نہیں ہوتے، بلکہ ہر عالم اپنے اجتہاد کے مطابق کسی مسئلے میں رائے قائم کرتا ہے۔ اس لیے ہمیں اختلافی مسائل میں شدت اختیار کرنے کے بجائے علمی و تحقیقی رویہ اپنانا چاہیے۔
مصنف نے کتاب میں یہ بھی وضاحت کی ہے کہ مختلف مکاتبِ فکر نے شبِ برات کے حوالے سے جو مؤقف اختیار کیا ہے، وہ کسی بدنیتی یا دین میں بدعت داخل کرنے کے ارادے سے نہیں بلکہ فقہی اصولوں اور دلائل کی بنیاد پر ہے۔ بعض علما نے اس رات کو خصوصی فضیلت دی ہے اور اس میں عبادات کو مستحب سمجھا ہے، جب کہ بعض نے اس فضیلت کو تسلیم نہیں کیا۔ مصنف نے دونوں آرا کو تفصیل سے بیان کرتے ہوئے اس مسئلے کو ایک علمی بحث کے طور پر پیش کیا ہے، نہ کہ کسی خاص نقطہ نظر کی تبلیغ کے طور پر۔
شبِ برات کے بارے میں محدثین اور فقہا کی آرا کو بیان کرنے کے بعد، مصنف نے اس رات کے اعمال پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ بعض علما نے اس رات کو قیام، عبادت، تلاوتِ قرآن اور دعا کے لیے مستحب قرار دیا ہے، جب کہ بعض نے اسے عام راتوں کی طرح ہی شمار کیا ہے۔ کتاب میں یہ بھی ذکر کیا گیا ہے کہ بعض علاقوں میں اس رات کو بدعات اور غیر شرعی رسومات کا مرکز بنا دیا جاتا ہے، جو دین میں اضافہ کرنے کے مترادف ہے۔ اس حوالے سے مصنف نے متوازن رویہ اپناتے ہوئے لکھا ہے کہ اگر کوئی اس رات میں عبادت کرتا ہے تو اسے بدعت قرار نہیں دیا جا سکتا، لیکن اگر کوئی اسے فرض یا واجب سمجھ کر مخصوص طریقے سے مناتا ہے تو یہ درست نہیں۔
مصنف نے شبِ برات کے حوالے سے معاصر علما کے فتاویٰ کو بھی ذکر کیا ہے، جن میں شیخ عبدالعزیز بن باز، شیخ محمد بن صالح العثیمین، شیخ عبداللہ بن جبرین اور شیخ صالح الفوزان شامل ہیں۔ ان علما نے اس رات کی فضیلت کے بارے میں محتاط رویہ اختیار کیا ہے اور بعض نے اسے ضعیف احادیث پر مبنی قرار دیا ہے۔ تاہم، مصنف نے ان کے فتاویٰ پر بھی علمی نقد کرتے ہوئے بتایا ہے کہ شبِ برات کے فضائل پر روایات کی ایک بڑی تعداد موجود ہے اور انہیں مکمل طور پر رد کر دینا بھی علمی دیانت کے خلاف ہے۔
کتاب کا ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ مصنف نے شبِ برات کے حوالے سے امت کے عمومی رویے پر تبصرہ کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا ہے کہ ہمیں ایسے مسائل میں سختی اور شدت اختیار کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔ وہ لکھتے ہیں کہ نماز، روزہ، زکوٰۃ اور دیگر بنیادی عبادات میں بھی فقہی اختلاف پایا جاتا ہے، لیکن ان پر ایسی شدت دیکھنے کو نہیں ملتی، جو شبِ برات جیسے ثانوی مسئلے پر نظر آتی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ اگر لوگ ایک دوسرے کے فقہی اختلافات کا احترام کریں اور علمی بنیادوں پر گفتگو کریں تو امت میں اتحاد پیدا ہو سکتا ہے۔
مصنف آخر میں اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ شبِ برات کی فضیلت پر موجود احادیث کو مکمل طور پر رد کر دینا بھی درست نہیں، اور اس رات کو بدعات و خرافات سے بھر دینا بھی غلط ہے۔ سب سے بہتر طریقہ یہی ہے کہ اس رات کو عبادات اور نیکی کے کاموں میں گزارا جائے، بغیر اس کے کہ کسی پر کوئی مخصوص عمل لازم ٹھہرایا جائے۔ وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ شبِ برات کے مسئلے کو علمی اور تحقیقی بنیادوں پر سمجھنے کی ضرورت ہے، نہ کہ اسے تنازعات اور فرقہ واریت کا ذریعہ بنایا جائے۔
یہ کتاب شبِ برات کے حوالے سے ایک گہرا اور مفصل مطالعہ فراہم کرتی ہے، جو قاری کو اس مسئلے کے تمام پہلوؤں سے روشناس کراتی ہے۔ مصنف نے اس موضوع پر ایک متوازن اور علمی انداز میں روشنی ڈالی ہے اور اس بات کی کوشش کی ہے کہ قاری کو کسی ایک مخصوص نقطہ نظر کا پابند کیے بغیر تمام دلائل اور آرا سے آگاہ کیا جائے۔ یہ کتاب ان لوگوں کے لیے ایک بہترین ذریعہ ہے جو شبِ برات کے حوالے سے تحقیق کرنا چاہتے ہیں اور اس مسئلے کو ایک وسیع علمی تناظر میں سمجھنا چاہتے ہیں۔