
قربانی: عبادت یا وسائل کا ضیاع؟
محسن خان
آج کے دور میں کچھ جدید یا لبرل سوچ رکھنے والے افراد قربانی کے عمل پر اعتراض کرتے ہیں۔ وہ اسے وسائل کا ضیاع، گوشت کا ضیعہ، یا غیر ضروری خرچ قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہوتا ہے کہ اگر قربانی کے جانوروں پر خرچ ہونے والے پیسے غریبوں کو دے دیے جائیں تو زیادہ فائدہ ہوگا۔ بظاہر یہ ایک ہمدردانہ مشورہ معلوم ہوتا ہے، لیکن اگر اس سوچ کو دینی، عقلی، معاشرتی اور روحانی زاویوں سے جانچا جائے تو یہ اعتراض سراسر ناقص اور بے بنیاد نظر آتا ہے۔
سب سے پہلی بات یہ ہے کہ قربانی محض گوشت کھانے یا تقسیم کرنے کا نام نہیں بلکہ ایک عبادت ہے، جس کا مقصد اللہ تعالیٰ کے حکم کی اطاعت، تقویٰ کا اظہار، اور سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی سنت کی پیروی ہے۔ قرآن مجید صاف کہتا ہے:
"لَن یَنَالَ ٱللَّهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاۤؤُهَا وَلَـٰكِن یَنَالُهُ ٱلتَّقۡوَىٰ مِنكُمۡۚ "
اللہ تعالیٰ کو نہ ان کے گوشت پہنچتے ہیں اور نہ خون، بلکہ اسے تمہاری پرہیزگاری پہنچتی ہے
(سورۃ الحج: ٣٧)
یعنی قربانی کی اصل روح اللہ تعالیٰ کی رضا ہے، نہ کہ گوشت یا مال۔
دینی عبادات کو صرف مادی نفع و نقصان کی بنیاد پر نہیں تولا جا سکتا۔ اگر یہی اصول بنا لیا جائے تو پھر نماز بھی وقت کا ضیاع ٹھہرے گی، روزہ جسمانی کمزوری کا باعث بنے گا، اور حج ایک مہنگا سفر قرار پائے گا۔ مگر یہ تمام عبادات اللہ تعالیٰ کی بندگی، روح کی تربیت اور انسان کو اس کے اصل مقصدِ حیات سے جوڑنے کا ذریعہ ہیں۔
قربانی کا عمل گوشت کی تقسیم اور معاشرتی فلاح کا ذریعہ بھی ہے۔ لاکھوں افراد ایسے ہیں جو سال بھر گوشت کا تصور نہیں کر سکتے، ان تک قربانی کے دنوں میں گوشت پہنچتا ہے۔ ایک منظم تقسیم کا طریقہ ہے جس میں انسان اپنے حصے کا گوشت خود رکھتا ہے، ایک حصہ رشتہ داروں کو دیتا ہے، اور ایک حصہ غریبوں میں تقسیم کرتا ہے۔ یہ وہ حکمت ہے جس میں عبادت کے ساتھ ساتھ معاشرتی انصاف اور خیرات کا پہلو بھی شامل ہے۔
یہ کہنا کہ قربانی کی جگہ پیسہ دے دیا جائے، ایک سطحی سوچ ہے۔ اگر عبادات کو پیسے سے بدلنا جائز ہو تو کیا نماز کی جگہ صدقہ دے کر معاف کرا لی جائے؟ یا روزے کی جگہ کسی غریب کو کھانا کھلا دیا جائے؟ یہ رویہ دراصل دینی احکامات کی اصل روح سے انحراف ہے۔ ہر عبادت کا ایک مخصوص طریقہ اور شکل ہے، جسے انسان کے فہم و فائدے پر قربان نہیں کیا جاسکتا۔
قربانی کا ایک عظیم فائدہ یہ بھی ہے کہ یہ انسان کو ایثار، تقویٰ، اطاعت، اور قربانی کا عملی سبق دیتی ہے۔ سیدنا ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہم السلام کی قربانی ہمیں سکھاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے اپنی سب سے محبوب چیز کو بھی قربان کرنا ایمان کا تقاضا ہے۔ یہ جذبہ صرف جانور کے ذبح تک محدود نہیں رہتا، بلکہ انسان اپنی زندگی کے ہر شعبے میں اللہ تعالیٰ کے حکم پر سرِ تسلیم خم کرنا سیکھتا ہے۔
اسلام میں غربت کے خاتمے کے لیے دیگر مستقل ذرائع پہلے سے موجود ہیں: زکاة، صدقات، فطرانہ، کفارات، عطیات، یہ سب اس مقصد کے لیے کافی ہیں۔ قربانی ان سب کے علاوہ ایک الگ عبادت ہے جسے صرف مالی پہلو سے دیکھنا دین کے مزاج سے ناواقفیت کی علامت ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ قربانی پر اعتراض کرتے ہیں، وہ خود اپنی زندگی میں کئی ایسی چیزوں پر فضول پیسہ خرچ کرتے ہیں جن کا نہ کوئی روحانی فائدہ ہے اور نہ معاشرتی۔ مہنگی تقریبات، لباس، پالتو جانور، موبائل، برینڈڈ چیزیں، کھانے پینے کی عیش پرستی، ان سب پر لاکھوں خرچ کرنا انہیں ضیاع محسوس نہیں ہوتا، مگر اللہ تعالیٰ کے لیے قربانی دینا ان کی تنقید کا نشانہ بنتا ہے۔ یہ دراصل دین سے بیزاری، مادہ پرستی، اور عبادات کو محض "سوشل ورک" میں بدل دینے کی خطرناک سوچ ہے۔
قربانی نہ صرف ایک عبادت ہے بلکہ امتِ مسلمہ کی روحانی تربیت، اجتماعیت، ایثار، اور اللہ تعالیٰ کے حکم کی اطاعت کا ایک جیتا جاگتا مظاہرہ ہے۔ اسے مالی فائدے اور نقصان کی ترازو میں تولنا اور صرف غریبوں کو پیسے دینے کی بات کرنا نہ صرف دینی ناسمجھی ہے بلکہ یہ رویہ ایمان کی روح سے خالی اور مادہ پرستی سے لبریز ہے۔
اسلام نے ہمیں نہ صرف عقل کی دعوت دی ہے، بلکہ عقل کو وحی کے تابع رکھنے کی تلقین بھی کی ہے۔ چنانچہ ہر سال کی قربانی صرف ایک جانور کا ذبح نہیں، بلکہ امت کے ہر فرد کو یاد دہانی ہے کہ جب اللہ کا حکم آجائے تو اپنی خواہش، عقل، اور مال سب کو قربان کرنا اہلِ ایمان کا شیوہ ہے۔