کبھی مایوس مت ہونا

کبھی مایوس مت ہونا

Last Updated: 1 day ago

✍️۔۔۔ شجاع مشتاق/ اننت ناگ 

 

مایوسی انسان کی زندگی میں ایک ایسا مرحلہ ہے جہاں وہ خود کو بے بس، ناکام اور بے مقصد محسوس کرتا ہے۔ یہ کیفیت نہ صرف ذہنی اور جذباتی سکون کو متاثر کرتی ہے بلکہ روحانی سطح پر بھی انسان کو کمزور کر دیتی ہے۔ تاہم، اسلام ایک ایسا دین ہے جو اپنے ماننے والوں کو ہر حال میں امید اور حوصلے کی تلقین کرتا ہے۔ قرآن و سنت میں بے شمار ایسی ہدایات موجود ہیں جو ہمیں اس بات کا درس دیتی ہیں کہ مشکلات اور آزمائشوں کے باوجود مایوس نہیں ہونا چاہیے بلکہ اللہ کی رحمت پر مکمل بھروسہ رکھنا چاہیے۔

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر فرمایا ہے: لا تقنطوا من رحمة الله یعنی "اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو"۔ کوئی بھی انسان خواہ کتنا ہی گناہگار کیوں نہ ہو، اگر وہ خلوصِ نیت کے ساتھ اللہ کی طرف رجوع کر لے تو اس کے لیے رحمتِ الٰہی کے دروازے ہمیشہ کھلے ہیں۔ اسی طرح، اللہ تعالیٰ نے سورۃ یوسف میں حضرت یعقوب علیہ السلام کے قول کو نقل کرتے ہوئے فرمایا: ولا تيأسوا من روح الله إنه لا ييأس من روح الله إلا القوم الكافرون یعنی "اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو، بے شک اللہ کی رحمت سے وہی لوگ مایوس ہوتے ہیں جو کافر ہیں"۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مایوسی درحقیقت اللہ پر بھروسے کی کمی کو ظاہر کرتی ہے، جو ایمان کے خلاف ہے۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ پر نظر ڈالی جائے تو یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہوتی ہے کہ آپؐ نے کبھی کسی حال میں مایوسی کو قریب نہیں آنے دیا۔ طائف میں شدید اذیت کے باوجود، ہجرت کے وقت غارِ ثور میں خطرناک حالات کے دوران، اور غزوۂ احد و خندق میں کٹھن لمحات کے باوجود آپؐ کا اللہ پر توکل اور یقین کبھی متزلزل نہیں ہوا۔ جب حضرت ابوبکر صدیقؓ نے غارِ ثور میں دشمنوں کی موجودگی پر فکر کا اظہار کیا تو آپؐ نے فرمایا: لا تحزن إن الله معنا یعنی "غم نہ کرو، بے شک اللہ ہمارے ساتھ ہے"۔ یہ الفاظ ہر اس شخص کے لیے امید کی کرن ہیں جو زندگی میں مشکلات سے دوچار ہو۔

مایوسی درحقیقت ایک نفسیاتی اور روحانی بیماری ہے جو انسان کو کمزور اور بے عمل بنا دیتی ہے۔ یہ بیماری صرف اس وقت پیدا ہوتی ہے جب انسان اپنی مشکلات کو بہت بڑا اور اللہ کی قدرت کو بہت چھوٹا سمجھنے لگے۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت، مغفرت اور قدرت سے بڑھ کر کچھ نہیں۔ جو شخص اس حقیقت کو دل سے تسلیم کر لے، وہ کبھی بھی مایوس نہیں ہوگا۔

مایوسی کا علاج اسلام میں صبر، دعا، اور عمل سے وابستگی میں مضمر ہے۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے صبر کرنے والوں کے بارے میں فرمایا: إنما يوفى الصابرون أجرهم بغير حساب یعنی "صبر کرنے والوں کو بے حساب اجر دیا جائے گا"۔ یہ وعدہ اس بات کا ثبوت ہے کہ جو شخص مشکلات میں بھی ثابت قدم رہے اور اللہ پر بھروسہ رکھے، اسے بے انتہا انعامات سے نوازا جائے گا۔

اقبال کی شاعری بھی اسی قرآنی پیغام کی ترجمانی کرتی ہے۔ وہ ہمیں صبر، استقامت اور حوصلے کی تلقین کرتے ہیں۔ ان کے الفاظ میں، زندگی کی جدوجہد میں کامیابی انہی کو نصیب ہوتی ہے جو اپنی ہمت کو مضبوط رکھیں اور عمل سے کبھی پیچھے نہ ہٹیں:

یقین، محکم، عمل، پیہم، محبت، فاتحِ عالم

جہادِ زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں

اس کے علاوہ، دعا ایک ایسا ہتھیار ہے جو انسان کو مایوسی سے نکال کر اللہ کی قربت میں لے آتا ہے۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ادعوني أستجب لكم یعنی "مجھ سے دعا کرو، میں قبول کروں گا"۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ہر موقع پر دعا کو اختیار کیا اور امت کو بھی اس کی تعلیم دی۔ حضرت یونس علیہ السلام جب مچھلی کے پیٹ میں قید تھے، تو انہوں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی: لا إله إلا أنت سبحانك إني كنت من الظالمين یعنی "تُو پاک ہے، تیرے سوا کوئی معبود نہیں، بے شک میں ہی ظالموں میں سے ہوں"۔ اس دعا کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے انہیں نجات عطا فرمائی۔ یہ دعا ہر اس شخص کے لیے ایک نمونہ ہے جو کسی بھی پریشانی میں مبتلا ہو۔

مایوسی کو ختم کرنے کا ایک اور اہم ذریعہ عمل اور جدوجہد ہے۔ جو شخص ہمت ہار کر بیٹھ جائے، وہ اپنی حالت میں کبھی تبدیلی نہیں لا سکتا، لیکن جو شخص مسلسل کوشش کرتا رہے، وہ ایک نہ ایک دن کامیاب ہو جاتا ہے۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: إن الله لا يغير ما بقوم حتى يغيروا ما بأنفسهم یعنی "بے شک اللہ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت نہ بدلے"۔ اس آیت میں واضح پیغام دیا گیا ہے کہ تبدیلی ہمیشہ کوشش کے نتیجے میں آتی ہے۔

مایوسی کو شکست دینے کے لیے مثبت سوچ بھی نہایت اہم ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ صحابہؓ کو حوصلہ اور امید کی تعلیم دیتے تھے۔ جب حضرت خباب بن ارتؓ نے مکہ میں شدید مظالم کی شکایت کی، تو آپؐ نے انہیں صبر اور استقامت کی تلقین کی اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ضرور فتح عطا کرے گا۔ یہی مثبت سوچ ہے جو ایک مومن کو حالات کے دباؤ سے نکال کر کامیابی کی راہ پر گامزن کرتی ہے۔

اقبال بھی اسی حقیقت کو یوں بیان کرتے ہیں:

نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشتِ ویراں سے

ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی

مایوسی کفر کے مترادف ہے اور اگر انسان میں محنت کا جذبہ اور اللہ کی رحمت پر بھروسہ ہو تو ناممکن کو ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ اسلام کا پیغام واضح ہے کہ کوئی بھی مشکل، کوئی بھی مصیبت اور کوئی بھی آزمائش ایسی نہیں جس کا حل موجود نہ ہو۔ جو شخص اللہ پر بھروسہ رکھے، دعا کرے، صبر سے کام لے، عمل جاری رکھے اور مثبت سوچ اپنائے، وہ کبھی بھی مایوس نہیں ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت ہمیشہ اس کے بندوں کے لیے کھلی ہے، اور کامیابی صرف انہی کو نصیب ہوتی ہے جو اس رحمت کی امید رکھتے ہیں۔

وما علينا إلا البلاغ