جانوروں کا قتل ظلم و تشدد ہے: لبرلز کے ایک اعتراض کے جواب میں
محسن خان
بعض جدیدیت پسند یا لبرل طبقے کی جانب سے عید الاضحیٰ کے موقع پر جانوروں کی قربانی پر یہ اعتراض سامنے آتا ہے کہ "یہ ایک پرتشدد اور غیر انسانی عمل ہے"۔ وہ اسے "جانوروں پر ظلم" قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ایک زندہ مخلوق کو ذبح کرنا، چاہے کسی بھی مقصد سے ہو، اخلاقی طور پر قابلِ قبول نہیں۔ بظاہر یہ اعتراض ہمدردی اور احساس پر مبنی معلوم ہوتا ہے، لیکن اگر اس کی گہرائی میں جاکر فکری اور اخلاقی سطح پر تجزیہ کیا جائے تو یہ اعتراض خود تضاد، غلط فہمی اور دوہرے معیار کا شکار ہے۔
سب سے پہلے ضروری ہے کہ ظلم کی صحیح تعریف کی جائے۔ ظلم درحقیقت کسی چیز کو اس کی اصل جگہ سے ہٹا دینا یا کسی کے حق کو سلب کرنا ہے۔ اگر انسان کسی بےقصور جانور کو بلاوجہ مارے، تکلیف دے یا اس کا حق چھینے، تو وہ یقیناً ظلم ہے۔ لیکن اگر ایک جانور کو اس کے خالق کی ہدایت اور مخلوق کی ضرورت کے تحت قربان کیا جائے، تو یہ نہ ظلم ہے اور نہ تشدد، بلکہ ایک مقدس عبادت ہے جو تقویٰ، ایثار اور اطاعت کے جذبے پر مبنی ہے۔
اسلام دنیا کا وہ واحد نظامِ حیات ہے جس نے نہ صرف انسانوں بلکہ جانوروں کے بھی حقوق مقرر کیے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
"اللہ نے ہر چیز میں احسان کو لازم کر دیا ہے، پس جب تم ذبح کرو تو اچھے طریقے سے ذبح کرو"۔
(صحیح مسلم)
یہاں تک کہ آپ ﷺ نے چھری تیز کرنے، جانور کو خوفزدہ نہ کرنے، اور اسے آرام دہ طریقے سے ذبح کرنے کی سخت تاکید فرمائی۔ ایک اور مقام پر ایک عورت کو بلی کو قید رکھنے کی پاداش میں جہنم کا مستحق قرار دیا گیا۔ یہ تعلیمات اس بات کا ثبوت ہیں کہ اسلام میں جانوروں کے ساتھ رحم، نرمی اور عدل کا معاملہ لازم ہے۔
قربانی محض ایک رسم یا تہوار نہیں، بلکہ وسیع پیمانے پر ایک روحانی اور تربیتی عبادت ہے۔ یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت کا احیاء ہے، جو ہمیں قربانی، وفاداری، اور اللہ کی رضا کے لیے اپنی محبوب ترین چیز پیش کرنے کا سبق دیتی ہے۔ جب انسان ایک جانور کو اللہ کے نام پر قربان کرتا ہے، تو وہ صرف گوشت یا خون نہیں دیتا، بلکہ وہ اپنے نفس کی قربانی، اپنی خواہشات کو اللہ کے سامنے جھکانے اور تقویٰ کے جذبے کو زندہ کرنے کا مظاہرہ کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید نے فرمایا:
"اللہ کو نہ ان کے گوشت پہنچتے ہیں، نہ ان کا خون، بلکہ تمہارا تقویٰ اللہ کو پہنچتا ہے"
(سورۃ الحج: ٣٧)
اس آیت کا مطلب یہ نہیں کہ جانور ذبح کرنا بے معنی ہے، بلکہ یہ کہ اصل مقصد اللہ کی رضا ہے، محض رسم نہیں۔
یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ دنیا بھر میں روزانہ لاکھوں جانور ذبح ہوتے ہیں، جنہیں کھانے، چمڑے کی صنعت، کاسمیٹکس، فیشن، اور دیگر تجارتی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ مغربی معاشروں میں ہر دن کی بنیاد پر جو مقدار میں جانور ذبح کیے جاتے ہیں، وہ عید کے چند دنوں کی قربانیوں سے کئی زیادہ ہے۔ لیکن وہاں اس پر کوئی واویلا نہیں ہوتا، کیونکہ وہ عمل معیشت اور صارفیت (consumerism) کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔ یہ سراسر دوہرا معیار ہے کہ جب جانور اللہ کے لیے قربان کیا جائے تو وہ ظلم کہلاتا ہے، اور جب وہ انسان کی ہوس، فیشن یا کھانے کی عادت کے لیے مارا جائے تو وہ "ترقی" کا عمل کہلاتا ہے۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ انسان کو صرف سبزی خور بن جانا چاہیے تاکہ کسی جاندار کو نقصان نہ ہو۔ لیکن یہ فطرت کے خلاف ہے۔ فطرت میں جانور بھی ایک دوسرے کو کھاتے ہیں۔ شیر، بھیڑیا، چیتا، سب شکار پر زندہ ہیں۔ انسان اشرف المخلوقات ہے، اور اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا کہ:
" ہم نے مویشی تمہارے لیے پیدا کیے، ان سے تم فائدہ اٹھاتے ہو اور ان میں سے کھاتے بھی ہو۔"
(سورة النحل: ٥)
گویا جانوروں کو کھانے کی اجازت وحی نے دی ہے، اور یہی انسانی فطرت کے مطابق ہے۔
اگر قربانی کو ظلم کہا جائے، تو پھر اصل ظلم کے مظاہر پر بھی سوال اٹھنا چاہیے۔ مثلاً دنیا میں بے گناہ انسانوں کا قتل، فلسطین اور دیگر ملکوں جیسے مقامات پر معصوم بچوں پر بمباری، عورتوں کا استحصال، سرمایہ دارانہ نظام میں غریبوں کا خون چوسنا،کیا یہ سب کچھ ظلم نہیں؟ لیکن حیرت کی بات ہے کہ ان تمام مظالم پر یہ طبقہ یا تو خاموش ہوتا ہے یا نظریاتی عذر پیش کرتا ہے، مگر مذہبی عبادات کو ہدفِ تنقید بناتا ہے۔
درحقیقت، جانوروں کی قربانی کو "ظلم" کہنا ایک سطحی سوچ ہے، جو نہ صرف دینی شعائر سے ناواقفیت کا نتیجہ ہے بلکہ مغرب سے مرعوبیت اور مذہب بیزاری کی علامت بھی۔ قربانی انسان کو اللہ کے ساتھ تعلق، معاشرت میں سخاوت، فطرت کے احترام، اور روح کی پاکیزگی کی تربیت دیتی ہے۔ یہ کوئی وحشیانہ عمل نہیں، بلکہ ایک بامقصد، با ادب اور باوقار عبادت ہے، جس کا ہر پہلو حکمت اور عدل پر مبنی ہے۔