
اسلامی معاشرے میں عورت کا پردہ: ظلم نہیں، وقار کی علامت
ناظمہ رسول
جب بھی پردے کی بات آتی ہے، تو کچھ لوگ فوراً اسے ظلم، قید یا پسماندگی کی علامت سمجھنے لگتے ہیں۔ ان کی نظر میں اگر کوئی عورت اپنے جسم کو ڈھانپ لیتی ہے، تو گویا وہ آزاد نہیں ہے۔ لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ میں ایک عورت ہوں، ایک بیٹی، ایک بہن اور کبھی کل کو ایک ماں بننے والی، اور میں اپنے دل کی گہرائیوں سے یہ بات کہتی ہوں کہ پردہ میرا قیدخانہ نہیں، بلکہ میری آزادی کا قلعہ ہے۔ یہ میری عزت، میرا احترام، میری پہچان اور میری حفاظت کی علامت ہے۔
پردہ ظلم نہیں بلکہ تحفظ ہے۔ جیسے ہم کسی قیمتی چیز کو سنبھال کر رکھتے ہیں، کسی بیش قیمت زیور کو کھلے میں نہیں چھوڑتے بلکہ اُسے خوبصورتی سے ڈبے میں بند رکھتے ہیں، اسی طرح عورت بھی ایک انمول گوہر ہے، جس کا اصل حسن اس کی شرم و حیا میں چھپا ہوتا ہے۔ اسلام نے عورت کو صرف جسمانی تحفظ ہی نہیں دیا، بلکہ روحانی، فکری اور معاشرتی وقار بھی عطا کیا ہے۔ اور پردہ اسی وقار کی عملی شکل ہے۔
میری زندگی میں، پردہ اختیار کرنا ایک باشعور فیصلہ تھا۔ میں نے کبھی اسے بوجھ نہیں سمجھا، بلکہ ایک سکون اور اطمینان کی چادر پایا۔ جب میں اپنے چہرے کو ڈھانپتی ہوں، تو مجھے لگتا ہے کہ میں نے دنیا کی نظریں اپنے دائرے سے باہر رکھ دی ہیں۔ میں خود کو محفوظ محسوس کرتی ہوں۔ کوئی غیر میری ظاہری صورت پر تبصرہ نہیں کرتا، کوئی میرے جسم کو تولنے والی نظروں سے نہیں دیکھتا، اور مجھے اپنی شناخت صرف ظاہری زیبائش سے نہیں بلکہ اپنے کردار سے بنانے کا موقع ملتا ہے۔
اسلامی معاشرے میں پردے کا مقصد عورت کو پیچھے ہٹانا نہیں، بلکہ اسے عزت دینا ہے۔ کیا ہم نے کبھی سوچا کہ جب سورج اپنی پوری آب و تاب سے چمکتا ہے، تو وہ پردے کے پیچھے یعنی بادلوں میں چھپ کر شرمندہ نہیں ہوتا؟ بلکہ اُس کی روشنی اور تمازت اُس وقت اور بھی حسین لگتی ہے۔ عورت کا پردہ بھی ایسا ہی ہے، وہ اُسے کمزور نہیں بلکہ بلند مقام پر فائز کرتا ہے۔
بعض لوگ دلیل دیتے ہیں کہ پردہ عورت کو سماجی، تعلیمی اور معاشی ترقی سے روکتا ہے، لیکن میں خود اس بات کی جیتی جاگتی مثال ہوں کہ پردہ میری راہ میں کبھی رکاوٹ نہیں بنا۔ میں نے تعلیم حاصل کی، دفاتر میں کام کیا، سفر کیا، بولی اور سنی گئی، لیکن سب کچھ عزت اور وقار کے دائرے میں رہ کر۔ میرا پردہ میری راہ میں دیوار نہیں، بلکہ میرے لیے ڈھال ہے۔
یاد رکھیے، پردہ صرف کپڑے کا ایک ٹکڑا نہیں ہوتا، بلکہ یہ ایک نظریہ ہے، ایک طرزِ فکر ہے، ایک طرزِ حیات ہے۔ یہ عورت کو مجبور نہیں کرتا، بلکہ اُسے اختیار دیتا ہے کہ وہ خود کو دوسروں کی نظریں بنانے کے بجائے اللہ کی رضا کا ذریعہ بنائے۔ یہ ہمیں سکھاتا ہے کہ ہم اپنی ذات کا تعارف اپنی جسمانی نمائش سے نہ کروائیں، بلکہ اپنے کردار، علم، اخلاق اور تقویٰ سے کروائیں۔
اسلام عورت کو قید نہیں کرتا، بلکہ اسے عزت دیتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "دنیا کی سب سے قیمتی چیز نیک عورت ہے۔" کیا آپ کسی قیمتی چیز کو کھلے عام رکھ چھوڑتے ہیں؟ نہیں! تو پھر عورت جو اللہ کی سب سے حسین تخلیق ہے، اُسے بے پردہ رکھ کر اُس کی عظمت کیوں گھٹائی جائے؟
پردے کی حقیقت کو سمجھنا ہوگا۔ یہ کوئی تنگ نظری نہیں، یہ کوئی جبر نہیں، یہ عورت کو پسماندہ بنانے کی کوشش نہیں بلکہ معاشرے کو فتنوں سے بچانے کی تدبیر ہے۔ جب عورت پردے میں ہوتی ہے تو وہ اپنے آپ کو اُس دائرے میں رکھتی ہے جہاں اُس کا احترام ہوتا ہے، جہاں اُسے بطور انسان دیکھا جاتا ہے، نہ کہ صرف ایک جسم کی نظر سے۔
میری تمام بہنوں سے گزارش ہے کہ وہ پردے کو بوجھ نہ سمجھیں، بلکہ اُسے اپنی طاقت بنائیں۔ یہ ہمیں اللہ کے قریب لے جاتا ہے، ہمیں لوگوں کی نظروں سے محفوظ رکھتا ہے، ہمیں اس معاشرے میں باوقار بناتا ہے۔ میں نے جب پردہ کیا، تو لوگوں کے رویے بدلے، اُن کی نظروں میں میرے لیے احترام آیا، اُن کی گفتگو کا انداز تبدیل ہوا۔ اور سب سے بڑھ کر، میرے دل کو ایک عجیب سکون اور اطمینان ملا، جو کسی اور چیز سے حاصل نہیں ہوا۔
اگر کوئی عورت پردہ نہیں کرتی، تو اُسے طعنہ دینا، یا اس پر انگلی اٹھانا ہمارا حق نہیں۔ بلکہ ہمارا فرض ہے کہ ہم اسے محبت اور حسنِ سلوک سے اُس وقار کی طرف بلائیں جسے اسلام نے عورت کا زیور قرار دیا ہے۔ یاد رکھیے، پردہ صرف لباس کا نام نہیں، بلکہ ایک اندرونی حیا، ایک احساس، ایک شعور کا نام ہے۔ اور یہ شعور جب عورت میں بیدار ہوتا ہے، تو وہ خودبخود اپنے رب کی رضا کو اپنا مقصد بناتی ہے۔
اسلامی معاشرہ وہ ہے جہاں عورت کو اُس کی اصل پہچان ملتی ہے۔ اور وہ پہچان پردے میں ہے، شرم و حیا میں ہے، پاکیزگی میں ہے۔ ہمیں فخر ہونا چاہیے کہ ہم اُس دین سے تعلق رکھتے ہیں جس نے عورت کو ماں، بیٹی، بہن اور بیوی کے رشتوں میں جنت کے دروازے عطا کیے۔ اور ان سب رشتوں کو حسن اور عزت عطا کی، نہ کہ ذلت۔
آخر میں، میں یہی کہوں گی کہ عورت کا پردہ کرنا نہ صرف اُس کی عزت اور تحفظ کی علامت ہے، بلکہ یہ اُس کی روح کی آزادی ہے۔ یہ اُسے اس دنیا کے جھمیلوں سے بچا کر ایک پُرامن اور باوقار زندگی کی طرف لے جاتا ہے۔ یہ کوئی قید نہیں، بلکہ آزاد ہونے کا اصل مفہوم ہے۔ پردہ عورت کے لیے اللہ کی طرف سے دیا گیا وہ تحفہ ہے جو اُسے دنیا کی نظریں برداشت کرنے سے بچا کر، اُس کی روح کو بلند کرتا ہے۔