اسلام کی روشنی میں سائنس: عقل، وحی اور کائنات کا مکالمہ

اسلام کی روشنی میں سائنس: عقل، وحی اور کائنات کا مکالمہ

Last Updated: 4 hours ago

شجاع مشتاق

 

اسلام اور سائنس کا تعلق نہ صرف قدیم ہے بلکہ ایک ایسا موضوع ہے جس پر دنیا بھر کے اہلِ علم نے گفتگو کی ہے۔ لیکن افسوس کہ آج کے دور میں بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ مذہب اور سائنس ایک دوسرے کے مخالف ہیں، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اسلام نے سائنس کو نہ صرف قبول کیا بلکہ اس کی بنیادیں مہیا کیں۔ قرآن مجید اور احادیثِ مبارکہ میں بار بار غور و فکر، مشاہدے، اور علم کے حصول کی ترغیب دی گئی ہے۔ جب کوئی شخص قرآن کو خلوص سے پڑھتا ہے تو وہ یہ بات بآسانی سمجھ جاتا ہے کہ یہ کتاب محض روحانی ہدایت تک محدود نہیں بلکہ کائناتی حقیقتوں کو جاننے کی دعوت بھی دیتی ہے۔

قرآنِ پاک میں کئی مقامات پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ "کیا تم غور نہیں کرتے؟" یا "کیا تم دیکھتے نہیں ہو؟"۔ یہ سوالات درحقیقت ایک ذہن کو بیدار کرنے والی آواز ہے، جو انسان کو محض عقیدے پر نہیں بلکہ علم اور فہم پر مبنی ایمان کی طرف بلاتی ہے۔ مثال کے طور پر، سورۃ الانبیاء کی آیت 30 میں کہا گیا ہے: "أَوَلَمْ يَرَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَاهُمَا" یعنی "کیا کافر نہیں دیکھتے کہ آسمان و زمین ایک بند حالت میں تھے تو ہم نے ان کو پھاڑ دیا؟"۔ یہ آیت نہایت حیران کن حد تک بگ بینگ تھیوری کے قریب نظر آتی ہے، جو آج کی جدید سائنس کی بنیاد سمجھی جاتی ہے۔

اسی طرح، جنین کی تشکیل کے مراحل پر غور کریں تو قرآن مجید میں سورہ مؤمنون کی آیات 12-14 میں بیان ہوا: "وَلَقَدْ خَلَقْنَا الإِنسَانَ مِن سُلاَلَةٍ مِّن طِينٍ ... ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً..." یعنی ہم نے انسان کو مٹی کے خلاصے سے پیدا کیا، پھر نطفہ بنایا، پھر جمے ہوئے خون کی شکل دی۔ یہ ترتیب آج کے جدید ایمبریالوجی کے اصولوں سے مطابقت رکھتی ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ معلومات ساتویں صدی میں نازل ہوئیں، جب انسان کے پاس نہ خوردبین تھی، نہ لیبارٹری، اور نہ ڈی این اے کا تصور۔

یورپ جب قرونِ وسطیٰ کے اندھیروں میں ڈوبا ہوا تھا، تو مسلم دنیا سائنسی ترقی کے عروج پر تھی۔ بغداد کا بیت الحکمہ ہو یا قرطبہ کی یونیورسٹی، مسلمانوں نے طب، کیمیا، فلکیات، ریاضی، اور فزکس جیسے شعبوں میں ناقابلِ فراموش خدمات انجام دیں۔ ابنِ الہیثم نے نظریۂ بصارت پر کام کیا، جسے آج اوپٹکس (Optics) کہا جاتا ہے۔ ان کا کام "المناظر" آج بھی یورپی جامعات میں حوالہ کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ الخوارزمی نے الجبرا کی بنیاد رکھی، جس کے بغیر آج کا جدید کمپیوٹر نظام قائم نہیں ہو سکتا۔ یہ سب وہ شخصیات تھیں جنہوں نے قرآن کے احکامات کو بنیاد بنا کر سائنس کو عبادت کی شکل دی۔

اسلام میں علم کو اتنا اہم مقام حاصل ہے کہ پہلی وحی کا آغاز بھی "اقْرَأْ" یعنی "پڑھ" سے ہوا۔ کسی اور مذہب کی کتاب میں علم کو اس قدر بنیادی اہمیت نہیں دی گئی۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "طلب العلم فريضة على كل مسلم" یعنی "علم کا حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے" (ابن ماجہ: 224)۔ یہ فرمان واضح کرتا ہے کہ اسلام میں علم محض ایک دنیاوی ضرورت نہیں بلکہ دینی فریضہ بھی ہے۔ اگر علم، یعنی سائنس، اسلام سے متصادم ہوتا تو رسول اللہ ﷺ کبھی اس کی اتنی تاکید نہ فرماتے۔

سائنس اور اسلام کا یہ تعلق صرف ماضی کا قصہ نہیں بلکہ آج بھی یہ حقیقت ہے۔ اگر آج کے سائنسدان قرآن مجید کو محض ایک مذہبی کتاب نہ سمجھیں بلکہ اسے تحقیق کے ایک ماخذ کے طور پر دیکھیں تو وہ نئی دنیاؤں کے در کھول سکتے ہیں۔ ڈاکٹر کیتھ مور، جو ایک مشہور کینیڈین ایمبریالوجسٹ ہیں، انہوں نے جب قرآن میں جنین کی تشکیل کے مراحل کا مطالعہ کیا تو حیران رہ گئے اور تسلیم کیا کہ یہ معلومات اس دور میں کسی انسان کے پاس ہونا ناممکن تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ محمد ﷺ کو یہ معلومات کسی عام ذریعے سے نہیں مل سکتی تھیں، یہ وحی الٰہی ہی ہو سکتی ہے۔

اسلام سائنس کی حمایت کرتا ہے، لیکن وہ سائنس جو خالق کو تسلیم کرے، جو انسان کو عاجزی سکھائے، جو کائنات کے اندر اللہ کی نشانیوں کو پہچانے۔ اسلام کسی بھی ایسی سائنس کو قبول نہیں کرتا جو انسان کو غرور، مادہ پرستی اور الحاد کی طرف لے جائے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی سائنس کا نقطۂ آغاز "بسم اللہ" سے ہوتا ہے اور اس کا اختتام "سبحان اللہ" پر۔

جب انسان سورج کی گردش، چاند کی منزلیں، ستاروں کی ترتیب، پانی کے بخارات، بارش کے قطرات، پہاڑوں کی بنیاد، ہوا کے دباؤ، اور حیات کی پیچیدگی پر غور کرتا ہے تو وہ بے اختیار پکار اٹھتا ہے کہ یہ سب کچھ کسی عظیم تر ذات کی کاریگری ہے۔ سائنس اگرچہ سوالات کے جواب تلاش کرتی ہے، لیکن اسلام ان جوابات کو ایک اعلیٰ تر مقصد سے جوڑتا ہے۔

سائنس کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ وہ صرف "کیسے" (how) کا جواب دیتی ہے، "کیوں" (why) کا نہیں۔ اور "کیوں" کا جواب صرف وحی سے ملتا ہے۔ قرآن وہ کتاب ہے جو سائنس کو نہ صرف قبول کرتی ہے بلکہ اسے ایک اعلیٰ اخلاقی اور روحانی دائرے میں لے جاتی ہے۔ اس میں کہیں بھی علم سے گریز، تحقیق سے خوف، یا عقل کی مذمت نہیں کی گئی۔ بلکہ علم، عقل، شعور، اور حکمت جیسے الفاظ قرآن میں بار بار آئے ہیں۔ یہی وہ روح ہے جس نے مسلمانوں کو صدیوں تک علم کے میدان میں رہنمائی دی۔

اگر آج بھی ہم قرآن کو صرف تلاوت کی کتاب نہ سمجھیں بلکہ تدبر اور تحقیق کا ذریعہ بنائیں، تو ہم سائنسی دنیا میں دوبارہ وہ مقام حاصل کر سکتے ہیں جو ہمارے اسلاف کا تھا۔ یہ وقت ہے کہ ہم دین کو دنیا سے جدا نہ کریں، بلکہ اسلام اور سائنس کے درمیان اس مقدس رشتے کو پھر سے زندہ کریں۔

یہ محض ایک مذہب کی حمایت نہیں بلکہ ایک ایسا پیغام ہے جو انسان کو علم کے ذریعے اپنے خالق تک پہنچنے کی دعوت دیتا ہے۔ اسلام صرف سائنس کو قبول نہیں کرتا، بلکہ اسے عبادت میں تبدیل کرتا ہے۔ اور یہی وہ چیز ہے جو اسے باقی تمام نظاموں سے ممتاز بناتی ہے۔