حروفِ جاوداں

حروفِ جاوداں

Last Updated: 4 days ago

شجاع مشتاق

 

صبح کی کرنیں جیسے ہی مدھم مدھم کھڑکی کے شیشوں سے چھن کر اندر داخل ہوئیں، وہ لڑکا ابھی تک کھڑکی کے پاس ہی بیٹھا تھا۔ اس کے ہاتھ میں ایک پرانی سی جلد میں بند کتاب تھی، جس کے صفحات وقت کی گرد سے ہلکے پیلے پڑ چکے تھے، مگر اس کے اندر ایک روشنی تھی، ایک زندگی، جو ہر صفحے کے ساتھ دل کو کسی اور ہی دنیا میں لے جاتی۔ اُس نے کتاب کو محبت سے تھاما، جیسے کوئی ماں اپنے بچے کو تھپک کر سلانے والی ہو۔ وہ قرآن تھا۔

نہ جانے کیوں، لیکن آج وہ الفاظ اُس کے دل پر پہلے سے کہیں زیادہ گہرے نقش چھوڑ رہے تھے۔ "یہ کتاب صرف پڑھنے کے لیے نہیں، جینے کے لیے ہے"، اُس کے استاد نے ایک دن کہا تھا۔ لیکن وہ وقت میں ایک بےجان سا جملہ محسوس ہوا تھا، ایک نصیحت جیسا۔ آج مگر وہ جملہ اپنی پوری معنویت کے ساتھ اُس کی روح میں گونج رہا تھا۔

بچپن میں جب اس کی ماں رات کو سونے سے پہلے اس کے سر پر ہاتھ پھیر کر تلاوت کرتی، تو وہ آواز اس کے دل کو عجیب سی راحت دیتی۔ لیکن اُس وقت اسے یہ سمجھ نہ تھی کہ وہ راحت کہاں سے آتی ہے۔ اب جب وہ خود قرآن کے حروف کو چھو کر پڑھتا، تو محسوس ہوتا جیسے یہ صرف الفاظ نہیں، یہ روشنی ہیں، یہ مرہم ہیں، یہ وہ سچائی ہے جسے دنیا کے شور میں چھپانے کی لاکھ کوشش کی گئی لیکن ہر بار یہ اجالا پھر سے اُبھر آتا۔

اُس کے دوست کہتے تھے، "قرآن تو صرف بزرگوں کے پڑھنے کی چیز ہے، یا پھر کسی عالم کے ہاتھوں میں زیب دیتا ہے۔ ہم جیسے عام لوگوں کو کیا حاصل؟" وہ پہلے خود بھی کچھ کچھ ایسا ہی سوچتا تھا، لیکن جب زندگی کے طوفانوں نے اسے ہلا کر رکھ دیا، جب اعتماد کی زمین نیچے سے نکل گئی، جب اپنوں کے چہرے نقاب بن گئے، تب ایک رات وہ خاموشی سے مسجد کے گوشے میں بیٹھ گیا۔ بس بیٹھا رہا۔ اور پھر جیسے قرآن نے خود اُسے آواز دی ہو — بےصدا، مگر بہت گہری آواز — اُس نے کھولا، اور پہلی ہی آیت میں اسے اپنا آپ ملا۔ جیسے اُس کے سوالوں کے جواب صدیوں پہلے ہی لکھے جا چکے ہوں۔

وہ سمجھ گیا تھا کہ قرآن صرف الفاظ کا مجموعہ نہیں، یہ ایک ہمسفر ہے، جو زندگی کی ہر راہ میں ساتھ چلتا ہے۔ یہ صرف ہدایت نہیں دیتا، یہ سنبھالتا بھی ہے۔ جیسے ماں بچہ گرتے ہی اُٹھا لیتی ہے، قرآن بھی انسان کو اس وقت تھام لیتا ہے جب وہ خود کو سنبھالنے کے قابل نہیں رہتا۔

وہ دن اور آج کا دن، وہ لڑکا اب ہر صبح قرآن کھولتا ہے، جیسے کوئی سورج نکلنے سے پہلے چراغ جلاتا ہے۔ اب اس کے دن کی روشنی، اس کے شب کی تنہائی، اس کے دل کی بےچینی، سب اسی کتاب سے جُڑی ہے۔ وہ جان چکا تھا کہ قرآن سے دوری دراصل اپنی اصل سے دوری ہے۔ یہ کتاب صرف عبادات کی نہیں، یہ تعلقات کی بھی رہنمائی کرتی ہے۔ یہ صرف آخرت کی تیاری نہیں، یہ دنیا کی سمجھ بھی عطا کرتی ہے۔

اسے اب وہ بات یاد آتی ہے جو کسی نے خاموشی سے کہی تھی: "جس کا قرآن سے تعلق زندہ ہو، اس کا دل کبھی مردہ نہیں ہوتا۔" وہ اب ہر آیت کو ایسے پڑھتا جیسے کوئی اپنا خط پڑھ رہا ہو — ایک ایسا خط جو خالق نے مخلوق کے دل تک پہنچانے کے لیے لکھا ہو، محبت میں، شفقت میں، اور رہنمائی میں۔

دنیا جتنی تیز چل رہی ہے، دل اتنے ہی خالی ہو رہے ہیں۔ رشتے، خواہشیں، کامیابیاں، سب کچھ ہوتے ہوئے بھی، کچھ کمی سی رہ جاتی ہے۔ اور وہ کمی صرف قرآن پوری کرتا ہے، جو ہمیں بتاتا ہے کہ اصل کامیابی کیا ہے، اصل خسارہ کس چیز میں ہے۔

اگر قرآن سے نزدیکی نہ ہو، تو انسان کے پاس علم ہو کر بھی وہ گمراہ رہتا ہے۔ اگر قرآن سے فاصلہ ہو، تو دولت، عزت، طاقت سب بےمعنی لگنے لگتے ہیں۔ کیونکہ یہ کتاب وہ آئینہ ہے جس میں انسان نہ صرف اپنا چہرہ دیکھتا ہے، بلکہ اپنی روح بھی پہچان لیتا ہے۔

وہ لڑکا اب بڑا ہو چکا تھا، لیکن اس کے دل میں ایک بچہ ابھی بھی زندہ تھا — وہی بچہ جو کبھی اپنی ماں کی تلاوت سے سویا کرتا تھا، اب وہی بچہ، وہی لڑکا، ہر رات قرآن کے لفظوں میں سو جاتا، اور ہر صبح ان لفظوں کی روشنی میں جاگتا۔

اور وہ جان چکا تھا — قرآن سے نزدیکی کوئی اختیار نہیں، ایک ضرورت ہے۔ دل کی، روح کی، زندگی کی۔