
جناب جاوید احمد غامدی کی شہرت کے چند عمومی اسباب
محسن خان
عمومی طور پر جناب جاوید احمد غامدی صاحب کی عوامی مقبولیت کے جو بنیادی عوامل ہیں، اُن میں سرِفہرست وہ باہمی نزاعات ہیں جو ہمارے مذہبی حلقوں میں فقہی اختلافات کو بنیاد بنا کر نہایت افسوسناک انداز میں ذاتی حملوں، تحقیر اور تذلیل کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔ مباح و نامباح، مکروہ و غیر مکروہ جیسی اصطلاحات کو لے کر جو کیچڑ اُچھالا جاتا ہے، وہ ہماری دینی فکری فضا کے انحطاط اور تنگ نظری کا بین ثبوت ہے۔ اگر ہم فقہی توسع، تنوعِ رائے اور اختلافِ رائے کے آداب کو اپناتے، تو شاید غامدی صاحب اور ان جیسے متجددین کو ہمارے نوجوانوں کے فکری رہنما بننے کا موقع نہ ملتا۔
دوسرا سبب ہمارے دینی قائدین میں برداشت و حلم کا فقدان ہے۔ جونہی کوئی صاحب اختلافِ رائے کا اظہار کرتا ہے، تو بجائے علمی مکالمے کے، چہرے پر خفگی اور لہجے میں تلخی در آتی ہے، گویا کہ صبر و تحمل کی تمام حدیں مٹ جاتی ہیں۔ تیسری اور نہایت افسوسناک کمزوری، اخلاقِ گفتگو کی پامالی ہے۔ ہمارے مذہبی طبقے میں "والکاظمین الغیظ" اور خندہ پیشانی جیسے قرآنی آداب کو بالائے طاق رکھ کر، اکثر اوقات مخالفین سے تحقیر آمیز اور درشت لہجے میں بات کی جاتی ہے۔
یہ وہ کمزوریاں ہیں جن کا فائدہ اُٹھا کر غامدی صاحب اور ان جیسے افراد عوامی ذہنوں میں اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ اگر ہم اِن نقائص کی بروقت اصلاح کرتے، تو شاید فکری بحران کی یہ صورت حال نہ پیدا ہوتی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ غامدی صاحب کا اختلاف اگرچہ شدید ہوتا ہے، لیکن اُن کی زبان و بیان میں تہذیب، شائستگی اور آدابِ اختلاف نمایاں ہوتے ہیں۔ آپ اُن کے ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم اور شہید سید قطب رحمہم اللہ کے بارے میں یوٹیوب پر تبصروں کو ملاحظہ فرمائیں،ہر جگہ اختلاف کے باوجود ایک خاص اخلاقی وقار اور فکری توازن نظر آئے گا۔
اس کے برعکس، ہمارے دینی اداروں اور جماعتوں سے وابستہ افراد کا طرزِ کلام اور اندازِ نقد بسا اوقات اس قدر جارحانہ اور غیر شائستہ ہو جاتا ہے کہ شرم بھی شرما جائے۔
یہی وجہ ہے کہ ہمارے باشعور اور تعلیم یافتہ نوجوان تقابل کے میدان میں آخرکار غامدی صاحب کے اسلوب سے متاثر ہوتے ہیں، کیونکہ وہاں انہیں ادب، منطق اور فکری اعتدال کا امتزاج دکھائی دیتا ہے۔
کاش! ہم اپنی صفوں میں جھانکتے، اپنی روش پر نظرِ ثانی کرتے اور اخلاص و اخلاق کی راہ اپناتے تو شاید آج یہ صورت حال نہ ہوتی۔