
غیبت، حسد اور بغض: سلف صالحین کی نظر میں
✍️۔۔۔ ناظمہ رسول/ لیور پہلگام
غیبت، حسد اور بغض وہ مہلک بیماریاں ہیں جو کسی بھی معاشرے کو اندر سے کھوکھلا کر دیتی ہیں۔ اسلامی تعلیمات میں ان برائیوں کو سختی سے منع کیا گیا ہے کیونکہ یہ افراد کے باہمی تعلقات کو بگاڑتی ہیں اور سماجی ہم آہنگی کو ختم کر دیتی ہیں۔ قرآن و حدیث میں ان امراض کی مذمت واضح الفاظ میں بیان کی گئی ہے، اور سلف صالحین، تابعین اور تبع تابعین نے بھی ان سے اجتناب کو اپنی زندگی کا اصول بنایا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے غیبت کو مردہ بھائی کا گوشت کھانے کے مترادف قرار دیا اور اسے ایک گھناؤنی حرکت قرار دیا جس سے ایمان کو شدید نقصان پہنچتا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: "کیا میں تمہیں نہ بتاؤں کہ غیبت کیا ہے؟" صحابہ کرامؓ نے عرض کیا: "کیوں نہیں، یا رسول اللہ ﷺ۔" آپ ﷺ نے فرمایا: "کسی بھائی کا اس کے پیچھے وہ عیب بیان کرنا جسے وہ ناپسند کرتا ہو۔" صحابہؓ نے عرض کیا: "اگر وہ عیب اس میں موجود ہو تب؟" آپ ﷺ نے فرمایا: "اگر وہ عیب اس میں ہو تو یہی غیبت ہے، اور اگر وہ عیب اس میں نہ ہو تو یہ بہتان ہے۔" (مسلم)
سلف صالحین نے غیبت کو ایک اخلاقی سرطان قرار دیا جو نہ صرف افراد بلکہ پورے معاشرے کی تباہی کا سبب بنتا ہے۔ حضرت حسن بصریؒ نے فرمایا کہ غیبت سے بچنے والا شخص اپنی عزت و آبرو کو محفوظ کر لیتا ہے، اور جو شخص دوسروں کی برائیاں بیان کرتا ہے، اس کا کردار خود مشکوک ہو جاتا ہے۔ امام مالکؒ فرماتے ہیں کہ غیبت دل کی سیاہی اور زبان کی آفت ہے، جو انسان کو دوسروں کے عیوب میں مشغول کر کے اپنی اصلاح سے غافل کر دیتی ہے۔
بغض اور حسد کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "تم آپس میں حسد نہ کرو، بغض نہ رکھو، اور ایک دوسرے سے روگردانی نہ کرو، بلکہ اللہ کے بندے بھائی بھائی بن جاؤ۔" (بخاری و مسلم) حضرت ابن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جیسے آگ لکڑی کو جلا دیتی ہے۔" (ابو داؤد) سلف صالحین نے حسد کو روحانی زہر قرار دیا جو انسان کو اندھیروں میں دھکیل دیتا ہے۔ امام شافعیؒ نے فرمایا کہ حسد نہ صرف دل کو مردہ کر دیتا ہے بلکہ انسان کے اعمال کو ضائع کر دیتا ہے۔
تابعین اور تبع تابعین نے معاشرتی استحکام کے لیے ان برائیوں سے بچنے کو اپنی تربیت کا اہم جزو بنایا۔ حضرت سفیان ثوریؒ فرماتے ہیں کہ جس شخص کا دل بغض سے بھرا ہو، وہ کبھی بھی دین کا صحیح فہم حاصل نہیں کر سکتا۔ امام اوزاعیؒ نے فرمایا کہ جو شخص غیبت اور حسد سے محفوظ رہتا ہے، وہ درحقیقت شیطان کی چالوں سے بچنے والا حقیقی مومن ہوتا ہے۔
معاشرتی سطح پر غیبت، حسد اور بغض کے اثرات تباہ کن ہوتے ہیں۔ یہ برائیاں افراد کو ایک دوسرے سے بدظن کرتی ہیں، بھائی چارے کو کمزور کرتی ہیں، اور محبت و ایثار جیسے جذبات کو ختم کر دیتی ہیں۔ سلف صالحین کے نزدیک ان امراض کا علاج تین اہم اصولوں میں مضمر تھا: تقویٰ، اخلاص اور صبر۔ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ فرماتے تھے کہ جس شخص کے دل میں تقویٰ پیدا ہو جائے، وہ نہ غیبت کر سکتا ہے، نہ حسد میں مبتلا ہوتا ہے اور نہ ہی بغض پال سکتا ہے۔ امام احمد بن حنبلؒ فرماتے تھے کہ جو شخص اپنے نفس کو قابو میں رکھے اور اپنی زبان کی حفاظت کرے، وہ درحقیقت فلاح پا جاتا ہے۔
قرآن کریم نے سورہ الحجرات میں غیبت کی مذمت کرتے ہوئے اسے مردہ بھائی کا گوشت کھانے سے تشبیہ دی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: "اور تم میں سے کوئی کسی کی غیبت نہ کرے۔ کیا تم میں سے کوئی یہ پسند کرے گا کہ وہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے؟ اسے تو تم ناپسند کرتے ہو۔" (الحجرات: 12) حسد کے حوالے سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: "اور حسد کرنے والے کے شر سے جب وہ حسد کرے۔" (الفلق: 5) یہ آیات اس حقیقت کو واضح کرتی ہیں کہ ان برائیوں سے بچنا نہ صرف ایمان کا تقاضا ہے بلکہ معاشرتی استحکام کے لیے بھی ضروری ہے۔
سلف صالحین، تابعین اور تبع تابعین کے نزدیک غیبت، حسد اور بغض ایسی بیماریاں ہیں جن سے بچنے کے لیے فرد کو اپنی روحانی اصلاح پر توجہ دینی چاہیے۔ حضرت ابراہیم نخعیؒ فرماتے ہیں کہ جو شخص اپنی زبان کو قابو میں رکھے، وہ درحقیقت اپنے ایمان کو محفوظ کر لیتا ہے۔ امام ابو حنیفہؒ فرماتے تھے کہ علم و عمل کا جوہر اسی میں ہے کہ انسان اپنی زبان اور دل کی اصلاح کرے۔
لہٰذا، معاشرتی امن اور بھائی چارے کو فروغ دینے کے لیے ضروری ہے کہ غیبت، حسد اور بغض جیسی برائیوں سے اجتناب کیا جائے۔ ان امراض سے بچنے کے لیے ہمیں قرآن و سنت کے ساتھ ساتھ سلف صالحین، تابعین اور تبع تابعین کی تعلیمات کو اپنانا ہوگا تاکہ ایک خوشحال، پرامن اور محبت سے بھرپور معاشرہ تشکیل دیا جا سکے۔