فتویٰ یا فہم؟

فتویٰ یا فہم؟

Last Updated: 3 days ago

✍️۔۔ محسن خان 

ہماری ایک عمومی عادت رہی ہے کہ جب بھی کوئی نئی ایجاد سامنے آتی ہے، ہم بلا تحقیق اسے حرمت کا فتویٰ دے کر مسترد کر دیتے ہیں۔ ماضی میں مائیکروفون آیا تو شور اٹھا کہ یہ ناجائز ہے، کیمرہ آیا تو اس پر فتوے لگے، اور جب ٹیلی ویژن آیا تو اسے بھی مطلق حرام قرار دیا گیا۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ہمیں خود ہی اپنے ان فیصلوں پر نظرِ ثانی کرنی پڑی اور ہم نے وہی چیزیں قبول کر لیں جنہیں پہلے مسترد کر چکے تھے۔

آج بھی یہی طرزِ عمل بعض نئی چیزوں کے ساتھ دہرایا جا رہا ہے، جیسے "Ghibli" کے حوالے سے جلد بازی میں حرام کے فتوے دیے جا رہے ہیں، حالانکہ مناسب رویہ یہ ہے کہ فوری رد و قبول کے بجائے تحقیق، تدبر اور بردباری سے کام لیا جائے، یہاں تک کہ اس شے کی حقیقت و ماہیت، اس کا اثر اور اس کا مصرف واضح ہو جائے۔

امام نووی رحمہ اللہ نے "آداب المفتي والمستفتي"اور بھی کئی دیگر علماء نے یہ لکھا ہے کہ:

" ينبغي للمفتي أن يتأمل في المسألة تأملا شافيًا، وإذا لم يعرف حكمها يتوقف حتى يتبين له الصواب..."

مفتی کے لیے لازم ہے کہ وہ مسئلے پر مکمل غور و فکر کرے، اور اگر اسے اس کا حکم معلوم نہ ہو تو توقف اختیار کرے یہاں تک کہ اس پر درست بات واضح ہو جائے۔

اسی طرح اللہ تعالیٰ نے واضح تنبیہ فرمائی ہے:

وَلَا تَقُولُوا۟ لِمَا تَصِفُ أَلۡسِنَتُكُمُ ٱلۡكَذِبَ هَـٰذَا حَلَـٰلࣱ وَهَـٰذَا حَرَامࣱ لِّتَفۡتَرُوا۟ عَلَى ٱللَّهِ ٱلۡكَذِبَۚ إِنَّ ٱلَّذِینَ یَفۡتَرُونَ عَلَى ٱللَّهِ ٱلۡكَذِبَ لَا یُفۡلِحُونَ

اور اپنی زبانوں سے جھوٹ بول کر یہ نہ کہا کرو کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام، تاکہ تم اللہ پر جھوٹ باندھو۔ یقیناً وہ لوگ جو اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں، وہ کبھی فلاح نہیں پائیں گے۔"

(سورۃ النحل: ١١٧)

اسی قرآنی اصول کے پیش نظر شافعی فقہاء اکثر فتوے میں "حرام" جیسی اصطلاح سے گریز کرتے ہوئے اس کے بجائے "مکروہ" کی اصطلاح استعمال کیا کرتے تھے، تاکہ اللہ تعالیٰ پر افترا کا اندیشہ نہ ہو۔