فتنۂ ارتداد: عصرِ حاضر کا فکری چیلنج

فتنۂ ارتداد: عصرِ حاضر کا فکری چیلنج

Last Updated: 7 hours ago

شجاع مشتاق/ اننت ناگ

 

فتنۂ ارتداد عصرِ حاضر کا ایک نہایت نازک، پیچیدہ اور سنگین مسئلہ ہے، جس کے اثرات فرد، معاشرہ اور امتِ مسلمہ کے اجتماعی شعور پر پڑ رہے ہیں۔ یہ ایک ایسا فکری، اعتقادی اور تہذیبی بحران ہے جو صرف کسی مخصوص طبقے، علاقے یا زمانے تک محدود نہیں بلکہ پوری اسلامی دنیا کو اپنے شکنجے میں لینے کی کوشش کر رہا ہے۔ اسلامی تاریخ میں ارتداد کا فتنہ کوئی نیا مظہر نہیں، ابتدائے اسلام ہی سے ایسے فتنے رونما ہوئے جن میں بعض افراد یا گروہوں نے دینِ حق کو چھوڑ کر گمراہی کو اختیار کیا، مگر عصرِ جدید میں اس فتنے کی نوعیت، شدت اور وسعت کئی گنا بڑھ چکی ہے۔

ارتداد لغوی طور پر واپس لوٹنے کو کہا جاتا ہے، یعنی کسی چیز سے پیچھے ہٹ جانا، اور شریعت کی اصطلاح میں اسلام قبول کرنے کے بعد کسی شخص کا شعوری طور پر اسلام کو ترک کر دینا ارتداد کہلاتا ہے۔ قرآن و سنت میں اس کے بارے میں واضح ہدایات موجود ہیں اور فقہ اسلامی میں اس کے احکام صراحت سے بیان کیے گئے ہیں۔ اسلامی نقطۂ نظر سے ارتداد ایک بڑا جرم ہے کیونکہ یہ نہ صرف اللہ کے ساتھ کیے گئے عہد کی خلاف ورزی ہے بلکہ ایک فکری بغاوت بھی ہے جو پورے معاشرے کے ایمانی ڈھانچے کو کمزور کرتی ہے۔

عصرِ حاضر میں ارتداد کے فتنے نے جو نئی صورتیں اختیار کی ہیں وہ محض روایتی معنوں میں اسلام کو زبانی ترک کرنے تک محدود نہیں رہیں بلکہ ذہنی و فکری ارتداد کی کئی نئی شکلیں پیدا ہو چکی ہیں۔ ان میں سے کچھ صورتیں ایسی ہیں جو بظاہر اسلام سے تعلق کو قائم رکھتی ہیں، مگر حقیقت میں وہ اسلامی عقائد، اقدار اور تعلیمات سے عملی بیزاری، انکار یا تحریف پر مبنی ہوتی ہیں۔ ایسے افراد اپنے آپ کو مسلمان کہلواتے ہیں، مگر اسلامی شریعت، قرآن و سنت اور دینی احکامات کو عصری فہم، مغربی فلسفے یا سائنسی معیارات کے تابع کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس فکری ارتداد کا دائرہ کار بہت وسیع ہے، اور یہ مدارس، جامعات، اکیڈمیا، میڈیا، اور سوشل پلیٹ فارمز کے ذریعے نوجوان ذہنوں کو متاثر کر رہا ہے۔

ارتداد کے اس فتنہ کو بڑھاوا دینے میں کئی داخلی و خارجی عوامل کارفرما ہیں۔ داخلی طور پر مسلمانوں میں دینی کمزوری، جہالت، مادیت پرستی، اور دنیاوی مفادات کی دوڑ نے اسلامی تشخص کو کمزور کر دیا ہے۔ تعلیم و تربیت کا نظام سیکولر بنیادوں پر قائم ہو چکا ہے جس میں اسلامی فکر و تہذیب کو بوجھ یا فرسودگی کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ مسلمانوں کی تاریخ، ثقافت، فقہ، اور دینی شعائر کو طنز، تمسخر اور تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے، جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ نوجوان نسل دین سے دور ہوتی جا رہی ہے۔ دوسری طرف خارجی عوامل میں مغربی استعمار، استشراق، سیکولرزم، لبرل ازم، اور دہریت جیسے نظریات کی یلغار نے اسلامی تہذیب کو چیلنج کر رکھا ہے۔ سوشل میڈیا، انٹرنیٹ اور جدید ٹیکنالوجی نے ان نظریات کو عوام تک پہنچانے کو آسان اور مؤثر بنا دیا ہے، جس سے ایک فکری انحراف پیدا ہو رہا ہے۔

یہ فتنہ اس وقت مزید سنگین ہو جاتا ہے جب ارتداد کو صرف ایک فرد کا ذاتی معاملہ یا آزادیٔ رائے کا مسئلہ سمجھ کر اس پر خاموشی اختیار کی جائے۔ حالانکہ یہ ایک ایسا اجتماعی مسئلہ ہے جس کے اثرات صرف ایک شخص تک محدود نہیں رہتے بلکہ پورے معاشرے میں فکری انتشار، نظریاتی ابہام اور دینی زوال کو جنم دیتے ہیں۔ ارتداد کا فتنہ صرف انکارِ خدا یا اسلام سے کھلا انحراف نہیں، بلکہ اس میں شامل ہیں: دین کی بنیادی باتوں پر شک، اسلامی احکام کو غیر عقلی کہنا، شریعت کے خلاف قانون سازی کی حمایت، اور مغربی تہذیب کو اسلامی تہذیب پر فوقیت دینا۔

اس تناظر میں امت مسلمہ کو ایک بار پھر اپنے فکری و دینی وجود کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ صرف فتووں، تقاریر یا مباحثوں سے اس فتنے کا حل ممکن نہیں بلکہ اس کے لیے گہرے فکری، تعلیمی اور تربیتی اقدامات کی ضرورت ہے۔ نوجوان نسل کی اسلامی بنیادوں پر تربیت، دینی تعلیم کا فروغ، جدید علمی و فکری سوالات کا مستند اور مدلل جواب، علما و دانشوروں کا باہمی اتحاد، اور اسلامی تہذیب کا مثبت تعارف وہ بنیادی ستون ہیں جن کے ذریعے ارتداد کے فتنہ کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔

اگر امت نے اس فتنے کو معمولی یا انفرادی سمجھ کر نظر انداز کیا تو وہ وقت دور نہیں جب فکری و اعتقادی ارتداد معاشرے کی بنیادوں کو اس طرح کھوکھلا کر دے گا کہ محض مذہبی علامات باقی رہ جائیں گی مگر ان کے پیچھے عقیدے اور یقین کی روح موجود نہ ہو گی۔ اس لیے آج ہمیں اجتماعی طور پر نہ صرف اس فتنے کو پہچاننا ہے بلکہ ہر سطح پر اس کے خلاف فکری، تعلیمی اور عملی حکمتِ عملی اختیار کرنی ہے۔ ارتداد کا فتنہ ایک فکری بیماری ہے جس کا علاج صرف اس وقت ممکن ہے جب دین کی حقانیت، قرآن و سنت کی روشنی، اور علمائے حق کی رہنمائی کو نہ صرف مانا جائے بلکہ اسے زندگی کا مرکز بنایا جائے۔ امت کی بقا اور اسلامی تہذیب کا تسلسل اسی میں مضمر ہے کہ وہ ہر فتنے کی شناخت کرے، اس کا ادراک رکھے، اور پوری بصیرت کے ساتھ اس کا سامنا کرے۔