
فرانز فینن کی کتاب : The Wreched of the Earth ایک تجزیاتی مطالعہ
✍️میر ذاکر
کوکرناگ کشمیر
کافکا کہتا ہے:
"ہمیں ایسی کتابوں کا مطالعہ کرنا چاہئے جو ہمیں بیدار کرے۔ جو کتاب آپ کے سر کو چکرا نہیں دیتی یا اپ کے اندر ایک تڑپ پیدا نہیں کرتی ایسی کتاب کا کوئی فائدہ نہیں"
خیر ! یہ ایک بڑے انسان کی بڑی بات ہوئی چاہے آپ اس سے جزوی اتفاق کرے یا مکمل۔ لیکن اج جو کتاب میرے پیش نظر ہے میں سمجھتا ہوں اس پر یہ بات من و عن صاد آتی ہے۔ یوں تو شاعری کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ انسانی جذبات کی ترجمان ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ دلوں کو موم اور آنکھوں کو نم کرتی ہے اور صاحب دل انسان اس کو اپنے اندر کی اواز سمجھ کر جھوم جاتا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ شاعری کی یہ تعریف بھی اس کتاب پر فٹ بیٹھتی ہے۔ کم سے کم مقبوضات میں سانسیں گننے والے لوگوں کے لیے یہ کتاب دل کی روداد ہے۔ یعنی میں The Wreched of the Earth کی بات کر رہا ہوں۔ یہ کتاب قاری کو جھنجھوڑ کے رکھ دیتی ہے اور ظلم و جبر میں تڑپتی انسانیت، اس کے خلاف پروان چڑھنے والا حریت کا رد عمل، آزادی کے دامن سے وابستہ ممکنہ خطرات اور نوآبادیات سے پیدا ہونے والے دور رس سماجی اور نفسیاتی مسائل پر زمینی گفتگو کرتی ہے۔
فرانز فینن کو اکثر محدود زاویہ سے دیکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ کسی نے اس کو تشدد کا پیامبر کہا تو کسی نے غیروں کا آلہ کار جب کہ فینن کے ساتھ انصاف یہ ہے کہ اس کو خود اس کی نظر سے دیکھا جائے۔ ورنہ وہی صورتحال پیش ائے گی جو اندھیرے کمرے میں ہاتھی کو پہچاننے میں لوگوں کو پیش آئی۔ جس کا ہاتھ ٹانگ پر پڑا تو اس نے اسے ستون جیسا سمجھا تو کسی نے پیٹ پر ہاتھ رکھ کر اسے ڈول سمجھا۔ فینن کا canvas بہت وسیع ہے اس کی شخصیت کے کئی پہلو ہے۔ وہ ایک ماہر نفسیات بھی ہے جو نوآبادیات کے نفسیاتی اثرات کو گہرائی میں سمجھتے تھے اور وہ ایک وجودی مزاحمت کے پرچارک بھی ہے، یعنی ان لوگوں کا وکیل جو غلامی میں جی کر اپنی شناخت اور تحفظ کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ فینن کو اس لئے بھی پڑھنا بہت ضروری ہے کیوں کہ وہ ہمیں انگلی پکڑ کر اس دنیا کے مسائل سے روشناس کراتے ہے۔ فینن کے نزدیک یہ دنیا غیر مساوی اور بکھری ہوئی دنیا ہے جہاں طاقت کا وحشیانہ تازیانہ گردش میں ہے۔ طاقت کا اندھا کوڑا یہاں سرگرم ہے جو پسماندہ اور کمزور انسانوں سے انسانیت کا حق چھیننے میں سرگرمِ عمل ہے۔اس لئے فینن کو پڑھنا گویا خود کو، سماج کو اور دنیا میں جاری کشمکش کو سمجھنے کے مترادف ہے۔
زیر بحث کتاب کا دیباچہ مہشور فلسفی، سارتر نے لکھا ہے جو نہ صرف فینن کے نظریہ کی تائید کرتے ہے بلکہ ایک جارحانہ انداز میں یورپ کی بے لگام ملگ گیری کو اپنی تنقید کا نشانہ بناتے ہے۔ ان کے نذدیک ظلم نہ صرف محکوم کو مفلوج کرتا ہے بلکہ حاکم پر بھی اپنے مہیب سایہ چھوڑتا ہے۔ وہ اپنے ہی تشدد میں اپنی انسانیت کھو بیٹھتا ہے۔ساتر کہتے ہیں کہ اس نظام کا مقصد صرف محکوم کو زیر کرنا نہیں ہوتا بلکہ اپنے تسلط کو برقرار رکھنے کے لئے تشدد کو ضروری تصور کر کے محکوم کی شناخت کو مسخ کرنا ہوتا ہے۔ ایسا عمل محکوم قوم میں شدید نفسیاتی ہیجان پیدا کرتا ہے جو شروعات میں آپس کے جھگڑوں میں رونما ہوتا ہے کیونکہ اول اول محکوم قوم نوآبادیات کا سامنا نہیں کر پاتی لیکن آخر کار یہ تشدد اپنے اصل ہدف یعنی نوآبادیات پر پلٹ کر وار کرتا ہے۔ ان کے نزدیک یہ تشدد محکوم عوام کی خود کو تعمیر کرنے اور اپنی کھوئی ہوئی آزادی اور ذمہ داری واپس لینے کی کوشش ہوتی ہے۔ فینن یورپ کی انسان دوستی کے کھوکھلے دعوؤں کو بھی اڑے ہاتھوں لیتے ہے۔ ان کی نظر میں یورپ خوشنما نعروں کے پیچھے لوٹ مار اور جبر و تشدد کو روا رکھنے والا علاقہ ہے۔ یورپ کی خوشحالی کے پیچھے تیسری دنیا سے کشید کیا گیا خون ہے جس سے اس نے اپنے محلات کو رنگین کیا ہے۔
فینن کے نزدیک نوآبادیات صرف زمیں چھیننے کا نام نہیں بلکہ یہ انسانیت اور انسانی قدروں کی تباہی ہے۔ اور اس تباہی کو ختم کرنے کا عمل یعنی نوآبادیات کا خاتمہ کسی پرامن چائے کہ پارٹی سے نہیں ہو سکتا۔ اس کے لئے لازمی طور پر تشدد ہی واحد راستہ ہے جو تشدد کو مٹا سکتا ہے۔ محکوم اپنی نفسیاتی صحت تب ہی بحال کر سکتا ہے جب وہ طاقت سے نوآبادکار سے نجات حاصل کرنے کے لئے کمر بستہ ہوں۔ نوآبادیات محض ایک تاریخی واقعہ نہیں بلکہ اسے تاریخ کے ساتھ براہ راست ایک زندہ تصادم کے طور پر دیکھنا چاہئے۔
تشدد یعنی concerning violence فینن کی کتاب کا ایک اہم حصہ ہے۔ فینن کہتے ہے کہ نوآبادیاتی نظام کا خاتمہ decolinization یا غلامی سے نجات کا خاتمہ ہمیشہ پُر تشدد رویے سے ہی ممکن ہوتا ہے۔ کیوں کہ باہر سے آکر حکومت کرنے والے خود ایک پُر تشدد طریقوں سے ہی مسلط ہوتے ہیں اور ان کی جڑوں کو واپس اکھاڑنا تشدد ہی سے ممکن ہوتا ہے۔ طاقت کو طاقت کے ذریعے ہی مات دی جاسکتی ہے۔ ان کے نزدیک نوآبادیاتی نظام شروع سے ہی دو مخالف دھڑوں میں بٹا ہوتا ہے۔ ایک طرف آبادکار یعنی organiser اور دوسری طرف مقامی باشندے یعنی organised۔ ان دونوں دھڑوں میں آپس کا رشتہ مفاہمت کا نہیں بلکہ ٹکراؤ اور مخاصمت کا ہوتا ہے۔ اور یہ کوئی اتفاق نہیں کہ یہ اس نظام کا لازمی حصہ ہوتا ہے جو ہمیشہ ٹینکوں اور توپوں کے سہارے چلتا ہے۔ لیکن وہ یہ بھی کہتے ہے کہ تشدد کا عمل ہی مظلوم کے لئے ذہنی تبدیلی کا ذریعہ بنتا ہے۔ یہ وہ لمحہ ہوتا ہے جب صدیوں سے دبی ہوئی چنگاری آخر بھڑک اٹھتی ہے اور محکوم اپنی کھوئی ہوئی میراث کو حاصل کرنے کی خاطر آٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ ویسے فینن تشدد کی تعریف نہیں کرتے نا ہی اسے رومانوی رنگ دیتے ہیں بلکہ وہ اسے ایک ضرورت کے طور پر ایک ایسے نظام کے خلاف پیش کرتے ہیں جس نے انسانیت اور انسانی قدروں کے خلاف سب دروازے بند کئے ہوتے ہیں۔ جب کسی آبادی یا گروہ کو غیر انسانی سطح تک دھکیل دیا جاتا ہے تو اس معاشرے میں ٹکراؤ کا رد عمل بنیادی عنصر بنتا ہے۔ یہ تصادم محکوم کے لئے زندگی و موت کا آخری مرحلہ ہوتا ہے۔ یہ جنگ، اُس اَمن سے بے پناہ خوبصورت ہوتی ہے جس میں انسان کی عزت نفس گروی رکھی جاتی ہے۔
نوآبادیاتی نظام کی تصویر اس حوالے سے بھیانک ہوتی ہے کہ اس میں لوگ دو حصوں میں بانٹے جاتے ہے ایک طرف نوآبادیات کا خوشحال شہر اور دوسری طرف مقامی پسماندہ لوگ۔ اور یہ صرف امیر غریب کی تقسیم نہیں ہوتی بلکہ یہ ایک نسلی تعصب پر استوار تقسیم ہوتی ہے۔ اس نظام کے لئے یہ از بس ضروری ہوتا ہے کہ وہ مقامی لوگوں کو جانوروں کی سطح پر لائے اور ان کی خودی، عزت نفس، اور قومی شناخت کو مسخ کرے۔ اس کے لئے ان کے اندر ایک احساس جرم، احساس کمتری اور برائی کی جڑ قرار دینا جیسے نفسیاتی امراض کو پروان چڑھایا جاتا ہے۔ کتاب کے اس حصے میں فینن کہتا ہے کہ جس قوم کو نسلوں تک کچلا جاتا ہے اس قوم کو پھر ان حالات سے نکل کر دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کے لئے جان و مال کی بہت بڑی قیمت چکانی پڑتی ہے۔ فینن آگے اس تشدد کا سرا شناخت سے، ثقافت سے، نفسیاتی بحالی سے اور ایک حقیقی طور پر آزاد معاشرے کی تعمیرِ نو کے پیچیدہ مسائل سے جوڑتا ہے۔
اگلے باب میں فینن ایک اہم بات کہتا ہے کہ اکثر انقلابات کسی مربوط حکمت عملی سے وجود میں نہیں آتے بلکہ بے ساختہ جذبے سے شروع ہوتے ہیں جس کو فینن spontaneity کہتا ہے۔ جب مظلوم عوام صدیوں کے جبر کے بعد اچانک آٹھ کھڑی ہوتی ہے اور ان کے پاس کوئی واضح لائحہ عمل نہیں ہوتا بلکہ اپنا درد،اپنا غصہ اور آزادی کی فطری تڑپ ہوتی ہے۔ اور یہ بے ساختگی یا spontaneity ناقابل یقین حد تک طاقتور ہونے کے ساتھ ساتھ کچے دھاگے کی طرح نازک بھی ہوتی ہے۔اس جذبے اور طاقت کو بے سمت لائحہ عمل، کمزور قیادت اور کچا سیاسی شعو الجھن و انتشار کا شکار کر کے طویل عرصے تک سبوتاژ کر سکتا ہے۔ پھر یہ بھی ہوتا ہے کہ مخالف قوتیں اس جذبے کو ان مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہے جن کا عوام کی آزادی سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا بلکہ "روٹی کپڑا اور مکان" کے کھوکھلے نعروں کی دہلیز پر آکر دم توڑتا ہے۔ فینن سمجھاتے ہیں کہ آزادی کا سفر ایک فطری جبلت سے شروع ہو کر ایک منظم جدو جہد تک کیسے پہنچتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ اس عمل کے لئے صرف اتحاد کافی نہیں بلکہ ایک شعور بھی ضروری ہے ورنہ بہت سارے اتحاد اصل مسائل کو چھوڑ کر فروعات کی نذر ہو جاتے ہیں۔ اگر تنظیم، ڈھانچہ اور شعور نہیں تو پھر انقلاب داخلی انتشار جیسا خطرہ مول لیتا ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ عوام کی ذہن سازی کر کے ان کو مضبوط تنظیم اور لائحہ عمل کی لڑی میں پرویا جائے۔ تاکہ اس صبر آزما عمل سے بہترین نتائج حاصل کئے جائے۔ بقول امام مودودی ؛
انقلاب یا ارتقاء ہمیشہ قوت ہی کے اثر سے رونما ہوا ہے۔ اور قوت ڈھل جانے کا نام نہیں بلکہ ڈھال دینے کا نام ہے۔ مڑ جانے کو قوت نہیں کہتے، موڑ دینے کو قوت کہتے ہیں۔ دنیا میں کبھی نامردوں اور بذدلوں نے کوئی انقلاب برپا نہیں کیا۔ جو لوگ اپنا کوئی اصول، کوئی مقصد حیات، کوئی نصب العین نہ رکھتے ہوں، جو کسی بلند مقصد کے لئے قربانی دینے کا حوصلہ نہ رکھتے ہوں، جو خطرات اور مشکلات کے مقابلے کی ہمت نہ رکھتے ہوں، جن کو دنیا میں محض آسائش و سہولیات ہی مطلوب ہوں، جو ہر سانچے میں ڈھل جانے اور ہر دباؤ سے دب جانے والے ہوں ایسے لوگوں کا کوئی قابل ذکر کارنامہ انسانی تاریخ میں نہیں پایا جاتا۔ تاریخ بنانا صرف بہادر مردوں کا کام ہے انہی نے اپنے جہاد اور اپنی قربانیوں سے زندگی کے دریا کا رخ پھیرا ہے، دنیا کے حالات بدلے ہیں۔ منہاجِ عمل میں انقلاب برپا کیا ہے۔ زمانے کے رنگ میں رنگ جانے کے بجائے زمانے کو اپنے رنگ میں رنگ ڈالا ہے۔"
جدید دنیا اگرچہ استعماری چُنگل سے ازاد ہو چکی ہے لیکن وہ آج بھی دیسی انگریزوں کے پنجوں میں تڑپ رہی ہے۔ فینن بھی اسی خدشے کی نشاندہی کرتا ہے کہ استعمار کے چُنگل سے کوئی قوم آزاد تو ہوتی ہے لیکن حقیقی آزادی کا حصول ابھی پردے میں ہوتا ہے۔ اس لئے نوزائیدہ آزادی امید اور خطرے کی ملی جلی کیفیت کے درمیان ہوتی ہے۔فینن اسی چیز کو قومی شعور کا نام دیتا ہے اور خبر دار کرتا ہے کہ نیا حکمران طبقہ اکثر پرانے حکمرانوں کی ہی نقل اتارنا شروع کرتا ہے۔ فرق بس اتنا ہوتا ہے کہ پرانے نظام کو ایک نئے نظام کا لباس پہنایا جاتا ہے جبکہ روح اور اصل پرانی ہی رہتی ہے۔ اس طرح انسانوں کی خود شناسی کا عمل سبوتاژ کیا جاتا ہے۔
ہم نے خود شاہی کو پہنایا ہے جمہوری لباس
جب ذرا آدم ہوا ہے خود شناس و خود نگر
کاروبار شہریاری کی حقیقت اور ہے
یہ وجودِ میر و سلطاں پر نہیں ہے منحصر
چہرے تو بدل جاتے ہیں لیکن جبر و تشدد کی ریت قائم رہتی ہے
مجھے یہاں پر سید قطب شہید کا وہ واقع یاد آتا ہے کہ جب مصر سے انگریزوں کے انخلا کا اعلان ہوا تو ان کے دوست ڈاکٹر عبد الصبور مرزوق خوش ہو کر ان کو مبارک باد دے کر کہتے ہیں مصر آزاد ہو گیا۔ لیکن سید قطب شہید ان سے مخاطب ہو کر جواب دیتے ہے؛
"انگریز تو غیر تھے ان کو آج یا کل یہاں سے نکلنا ہی تھا لیکن ہماری جنگ اب ان دیسی انگریزوں سے ہے جن کو اس نظام نے پال کر بڑا کیا ہے"
فینن زور دے کر کہتا ہے کہ چہرہ اور جھنڈا بدلنے سے آزادی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوتا بلکہ طاقت کا پورا نظام اور اس کی پوری منطق کا بدلنا ضروری ہوتا ہے۔ ورنہ دیسی انگریزوں کی کھیپ میں مقامی لوگوں کی گھٹن مزید بڑھ جاتی ہے۔ قوموں کو یہ ناکامی تب دیکھنی پڑتی ہے جب نئے حکمرانوں کی ذہنیت صنعتی کے بجائے بیوپاری، تخلیقی کے بجائے تقلیدی ہوتی ہے۔ ایسا حکمران طبقہ ضرور اپنے پیش روؤں کے نقش قدم پر چل کر نوزائیدہ آزادی کو زنجیروں میں جکڑ کر نوآبادیاتی نظام کی مراعات پر تقیہ اور قبضہ کرتا ہے۔ ایسی صورت میں نوآبادیات کے خلاف بننے والا وہ قومی اتحاد انتشار اور افراتفری کا شکار ہوتا ہے۔ مخلف جتھے وجود میں آکر آپس میں متحارب ہوتے ہیں۔ قومی، نسلی، قبائلی، لسانی تعصبات جنم لیتے ہیں۔ حکمران طبقہ مفاد پرست ٹولے کی شکل اختیار کرتا ہے اور اس طرح عوام اور حکمران طبقے کے درمیان خلیج بڑھ جاتی ہے۔ سیاست آمریت کا رنگ اختیار کرتی ہے اور معیشت ہچکولے کھانے لگتی ہے۔
اس سے بچنے کے لئے ضروری ہے کہ سارے نظام کو اپنئ قومی، تہذیبی اور ثقافتی بنیادوں پر استوار کیا جائے جس میں احترامِ آدمیت کا نظریہ غالب ہو۔ اس طرح یہ باب اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ آزادی حاصل کرنا صرف جھنڈے بدلنے کا نام نہیں بلکہ پورے معاشرے کی تعمیرِ نَو کا نام ہے.
آگے فینن قومی ثقافت اور آزادی کے فطری اور گہرے تعلق پر بات کرتے ہے۔ ان کے نزدیک ثقافت کوئی سرد خانے میں پڑی کوئی پرانی چیزوں کا ذخیرہ نہیں بلکہ یہ کسی قوم کی جیتی جاگتی میراث ہوتی ہے جو اس کے تشخص کو واضح بھی کرتی ہے اور تحفظ بھی دیتی ہے۔ فننن اس عمل کے مختلف مدارج بیان کرتا ہے کہ پہلے محکوم استعمار کی قدروں اور تہذیب کی نقل پر مائل ہوتا ہے۔ پھر جب اس کو اپنی شخصیت اور روایات کے خلاف پاتا ہے تو رد عمل کا مرحلہ آتا ہے جس میں ماضی کی طرف لوٹنے کا جذبہ شدت اختیار کرتا ہے اور آخر میں اس کے اندر ایک حقیقی ثقافت کے تحفظ کا جزبہ جنم لیتا ہے جو عوام کے تجربات اور ان کی امیدوں سے جڑا ہوتا ہے۔ استعماری قوتیں محکوم کو اپنے قومی دھارے میں لانے کے لئے اپنی ثقافت خوشنما ناموں کے ساتھ مسلط کرتی ہیں تاکہ ان کی آرزو اور بساط زندگی کے سارے مہرے ماند پڑ جائے۔ استعمار کے پے در ہے تہذیبی و ثقافتی حملے محکوم کے احساس تحفظ کو بڑھاتا ہے جو بالآخر ایک زبردست ہتھیار کا روپ دھار لیتا ہے۔ یہ احساس محکوم کو اپنی مسخ شدہ شناخت کی حفاظت کے لئے کمر بستہ کرتا ہے۔ فینن رقم طراز ہے کہ اگر کوئی قوم آزادی حاصل کر بھی لے لیکن اپنی ثقافت کھو دے تو وہ اب بھی زنجیروں میں ہے۔ سچ یہ ہے کہ ثقافت کوئی لباس تو ہے نہیں جس کو کسی سے مستعار لیا جائے۔ اس کا خمیر قوم کی داخلی زندگی سے اٹھتا ہے اور زندگی کی قدریں اور تصورات اس کے تانے بانے طے کرتے ہیں۔ اس لئے استعمار کا سب سے زیادہ حملہ محکوم کی ثقافت پر کیا جاتا ہے۔ کیوں کہ یہ ایک واحد چیز ہوتی ہے جو ایک قوم کو دوسری قوم سے ممیز کرتی ہے اور جس قوم سے اس کی ثقافت چھینی جاتی ہے وہ قوم بہت جلد اپنی شناخت، تاریخ اور حافظہ کھو دیتی ہے۔
کتاب کا آخری باب بہت اہمیت کا حامل ہے۔ جس میں فینن محکوم قوم پر، استعماری دور میں پڑنے والے گہرے اثرات پر گفتگو کرتے ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ استعماری دور کے زخم خالی جسمانی نہیں ہوتے بلکہ گہرے نفسانی عوامل کے حامل ہوتے ہیں۔ اور چونکہ فینن خود ایک ماہر نفسیات تھے اور انہوں نے ان عوامل و عوارض کی تشخیص خود اپنے مریضوں میں کی۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ عوارض اس پورے نظام کی عکاسی کرتے ہیں جو ایک خاص طبقے کو مسخ کرنے کے لئے وجود میں تو لائے جاتے ہیں لیکن اس کے اثرات استعمار کی بڑی آبادی کو بھی اپنی لپیٹ میں لیتے ہیں۔ استعماری تشدد کا زہر خود استعمار کے پورے جسم میں سرائیت کرتا ہے۔ خاص طور پر استعمار کے کارندے مثلا فوجی، بیوروکریٹ وغیرہ اپنے کئے گئے جرائم کے بار تلے شدید ذہنی کشمکش جیسے ڈراؤنے خواب، نفسیاتی ٹوٹ پھوٹ اور مزاج کی بے اعتدالی کا شکار رہتے ہیں۔ اور اکثر و بیشتر یہ مہیب سایہ ان کی خودکشی پر منتج ہوتا ہے۔ اس طرح ہم کو یہ بات سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے کہ نوآبادیات یا استعمار فقط سیاسی اور معاشی جبر کو جنم نہیں دیتا بلکہ ایک گہری نفسیاتی وبا کو پروان چڑھاتا ہے جس کا شکار قابض خود بھی ہوتا ہے۔
فینن یہ نقطہ نظر پیش کرتے ہے کہ استعمار کے خلاف محکوم کی جنگ اپنی کھوئی ہوئی انسانیت، اپنی ذات، اپنی سالمیت اور وقار کو دوبارہ پانے کی کوشش ہوتی ہے۔ چونکہ یہ نفسیاتی جنگ ایک مربوط نظام کی مسلط کردہ مکمل جنگ ہوتی ہے اس لئے اس کا خاتمہ محض clinical علاج سے ممکن نہیں ہوتا بلکہ یہ ایک سیاسی عمل بن جاتا ہے۔ یعنی اس نظام کا بدلنا ضروری ہو جاتا ہے جو یہ تباہی پھیلانے کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ نوآبادیاتی ماحول میں رہ کر کسی کو ٹھیک کرنا تقریبا ناممکن ہے کیوں کہ یہ ماحول خود آلودہ ہوتا ہے۔ اس کی کثافت محض توپ اور قانون میں نہیں بلکہ خوف، تذلیل اور ان گہرے نفسیاتی زخموں کی صورت میں ہوتی ہے جو نسل در نسل روح و جسم میں پیوستہ رہ کر متعددی اثر رکھتی ہے۔
آخر پر فینن قاری کو اپنی آزادی کے تحفظ کے لئے مغرب سے بچنے کی پر زور دعوت دیتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ مغرب کے ناکام آئینے میں خود کو دیکھنے کے بجائے اپنی دنیا خود تعمیر کی جائے۔ سچ تو یہی ہے کہ مغرب نے انسانیت کو ترقی کے نام پر استحصال اور تباہی کے سوا کچھ نہیں دیا۔ جہاں بھی مغرب نے اپنے پنجے گاڑے وہاں کی انسانیت کو اس نے سسکتے سسکتے موت کی گھاٹ اتارا اور جس نے ان کی تقلید کرنا چاہی اس کی خوشحالی کا ستارہ جلدی غروب ہو گیا۔ کیوں کہ یورپ کی بے خدا تہذیب اس نوآبادیاتی نظام کی موجد ہے جس کے دوش پر ابلیس سوار ہے۔
یہی درس دیتا ہے ہمیں ہر شام کا سورج
مغرب کی طرف جاؤ گے تو ڈوب جاؤ گے
فینن کی آواز سیدھی دل پر اثر کرتی ہے۔ خاص طور پر مقبوضہ علاقہ جات میں سانسیں گننے والے لوگوں کے درد و کرب کی داستان ہے جس کو فینن نے آواز دی ہے۔ فینن نو آبادیاتی نظام کے خلاف محض غصے کی علامت نہیں بلکہ وہ ایک ایسے مفکر ہے جو اپنے قاری کو سخت سچائی کا سامنا کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ جیسے تشدد کے بارے میں، تاریخ کے بارے میں اور خود ہمارے بارے میں۔ انصاف کے ہر مطالبہ میں، شناخت کے ہر بحران میں مزاحمت کے ہر عمل میں فینن کی گونج سنائی دیتی ہے۔ وہ نوآبادیات اور عالم استعمار کے بھیانک چہرے پر پردہ ڈالنے کے بجائے پردہ کشی کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ اس لئے جو نوآبادیاتی نظام کے تعفن سے واقف نہیں ہے اس کو میں کم سے کم فینن کی اس کتاب کا مطالعہ کرنے کا مشورہ دوں گا۔