
فکری معرکہ
عامر نذیر
(زیرِ تعلیم جامعہ عبد العزیز جِدّہ)
اسلام اپنے ابتدائی دور سے ہی مختلف میدانوں میں متنوع چیلنجز کا سامنا کرتا آیا ہے۔ شاید ہی کوئی ایسا زمانہ گزرا ہو جس میں امت مسلمہ کو کسی نئی آزمائش کا سامنا نہ ہوا ہو۔ یہ آزمائشیں روزِ قیامت تک جاری رہنے والی ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ کے ازلی قانون میں حق و باطل کے مابین کشمکش جاری رہنا طے ہے۔ جب تک زمین پر باطل کا وجود باقی ہے، اسلام اس کا مقابلہ کرنے اور اسے شکست دینے کے لیے اپنا کردار ادا کرتا رہے گا۔ اسلام، اللہ تعالیٰ کا عطا کردہ وہ ہتھیار ہے جو باطل کے خاتمے کے لیے انسانیت کو فراہم کیا گیا ہے۔
موجودہ دور میں امت مسلمہ کو جن مسائل کا سامنا ہے، ان میں سب سے بڑا چیلنج اسلامی اقدار اور مفاہیم کو مسخ کرنے کی کوشش ہے۔ نائن الیون کے بعد، جسے امریکہ نے "اسلامی بغاوت" (Insurrection of Islam) کا نام دیا، امریکہ کو ایک ایسے چیلنج کا سامنا تھا جو اس کی سلامتی اور استحکام کے لیے خطرہ بن رہا تھا۔ اس خطرے سے نمٹنے اور اپنے سرمایہ دارانہ سامراجی نظام کو برقرار رکھنے کے لیے مختلف علمی اور عملی اقدامات کیے گئے تاکہ اسلام کے ان نظریات کو، جن میں انہیں شدت پسندی کا شائبہ نظر آتا تھا، تبدیل کر کے مغرب کے لیے موافق بنایا جا سکے۔
اس مقصد کے حصول کے لیے مختلف تنظیمیں اور مفکرین تیار کیے گئے جن کا واحد مقصد یہ تھا کہ اسلامی اصول و مبادی کی جڑ تک پہنچا جائے۔ وہ اصول جن سے مسلمانوں کو یہ طاقت ملتی ہے کہ وہ دنیا کے کسی بھی نظام کو چیلنج کر سکیں۔ ان اصولوں کی ایسی تعبیرات کی گئیں جو مغرب کے لیے موزوں ہوں۔ اسی کوشش کے نتیجے میں کئی نئے مفاہیم اور اصطلاحات وجود میں آئیں اور مسلم و غیر مسلم دنیا میں اس طرح پھیلائی گئیں کہ بظاہر یہ یقین کرنا آسان ہو جائے کہ یہ اصطلاحات واقعی اسلام کا حصہ ہیں، جیسے "لبرل اسلام"، "اشتراکی اسلام"، "سیکولر اسلام"، "ریڈیکل اسلام"۔ اسی طرح اسلام کی داخلی ساخت کو بھی تقسیم کرتے ہوئے "صوفی اسلام"، "وہابی اسلام" وغیرہ جیسے القابات دیے گئے۔
یہ معرکہ صرف علمی حد تک محدود نہیں رہا بلکہ عملی میدان میں بھی اس کی تعبیر کے لیے اقدامات کیے گئے۔ معروف امریکی مصنف تھامس فریڈمن نے اس فکر کو فروغ دینے کے لیے افغانستان کے ہندوکش پہاڑی علاقے میں ایک گرلز اسکول کی افتتاحی تقریب میں شرکت کی اور وہاں خطاب کرتے ہوئے کہا:
"It is a war of ideas within Islam, a war between Islamic extremists who glorify martyrdom, wish to isolate Islam from civilization and other religions, and prevent women from holding positions, and those who wish to embrace modernity and the opening of Islam to new ideas, such as equality between men and women in holding positions."
یہ اسلام کے اندر ایک فکری جنگ ہے، ایک جنگ ان اسلامی شدت پسندوں کے خلاف جو شہادت کو مقدس جانتے ہیں، اسلام کو دیگر تہذیبوں اور مذاہب سے الگ رکھنے کے خواہاں ہیں، اور خواتین کو اعلیٰ عہدے حاصل کرنے سے روکتے ہیں، اور ان لوگوں کے درمیان ہے جو اسلام کو جدیدیت سے ہم آہنگ کرنے اور نئی افکار کے لیے کھولنے کی کوشش کر رہے ہیں، جیسے مرد و عورت کے مساوی حقوق۔
اپنے خطاب کی مزید وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا:
The U.S. invasion of both Afghanistan and Iraq was, in part, an attempt to create space for Islamist progressives to struggle and succeed, so that the true elements of change—a process that requires 21 years and 9 months—could produce a new generation that can be educated and raised differently.
امریکہ کا افغانستان اور عراق پر حملہ جزوی طور پر اس مقصد کے لیے تھا کہ اسلام پسند ترقی پسندوں کو جدوجہد اور کامیابی کا موقع فراہم کیا جا سکے، تاکہ تبدیلی کے حقیقی عناصر ابھر سکیں۔ ایک ایسا عمل جس کے لیے 21 سال اور 9 ماہ درکار ہیں، تاکہ ایک نئی نسل تیار ہو جو مختلف طریقے سے تعلیم اور تربیت حاصل کرے۔
اس فکری یلغار کے نتیجے میں آزادی پسندوں کو دہشت گرد کہا جانے لگا، سامراجیت کو آزادی کا نام دیا گیا، اور دین سے بیزار افراد کو مہذب ہونے کا لقب دیا گیا۔
اسی طرح، رابرٹ اسپینسر، جو "جہاد واچ" ویب سائٹ کے ڈائریکٹر ہیں، اپنے ایک مضمون "A Moderate Muslim Renounces the Jihad Ideology" میں لکھتے ہیں:
For the insurrection of Islamic Renaissance there must be a clear rejection of Quranic literalism, and if it is not done, then how will this literalism be prevented from resurrection again?
اسلامی احیاء کی بغاوت کو ختم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ قرآن کی لفظی تشریح کو واضح طور پر مسترد کیا جائے، کیونکہ اگر یہ نہ کیا گیا تو اس لفظی تشریح کے دوبارہ زندہ ہونے کو کیسے روکا جا سکتا ہے؟
یہ سب ظاہر کرتا ہے کہ ہمیں اپنے اسلامی اصطلاحات اور مفاہیم کو اپنے سلف کے نقطہ نظر سے سمجھنا ہوگا اور ان متجددین کے فریب سے دور رہنے کی حتی الامکان کوشش کرنی ہوگی، جو دراصل مغرب کے نظام کو مستحکم کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔
واللہ اعلم!