
فکرِ اقبال تجدید کی متقاضی
محسن خان
علامہ اقبال کی فکر عصرِ حاضر میں ازسرِ نو تجدید و تعبیر کی متقاضی ہے۔علامہ اقبال نے نوجوان نسل کو جو بصیرت افروز رہنمائی فراہم کی تھی، وہ آج کے پیچیدہ حالات اور بدلتے ہوئے تقاضوں میں نہ صرف تازہ تفہیم کی متقاضی ہے بلکہ عملی لحاظ سے بھی اپنانے کی ضرورت رکھتی ہے۔ آپ کی فکر ایک ایسے چراغ کی مانند ہے جو زندگی کے اندھیروں میں روشنی اور دلوں میں یقین کی کرن پیدا کرتا ہے۔ لیکن شومئی قسمت کہ آج کی نوجوان نسل اس چراغ کے نور سے بے بہرہ ہوتی جا رہی ہے۔
علامہ اقبال کے خیالات کا جوہر اور ان کی فکری عظمت اردو زبان میں مضمر ہے۔ یہی زبان ان کے پیغام کی اصل روح تھی اور ان کی شاعری کا حقیقی وسیلہ۔ لیکن موجودہ دور کا المیہ یہ ہے کہ ہماری نوجوان نسل اردو زبان سے بیگانگی اختیار کرتی جا رہی ہے، جس کے نتیجے میں وہ اپنی تہذیبی جڑوں سے بھی دور ہو رہی ہے۔ یہ صرف زبان کی شکست و ریخت کا معاملہ نہیں، بلکہ تہذیبی شناخت اور فکری اثاثے کا ایک المناک زوال ہے۔ اردو زبان سے دوری نے اقبال کی معنوی گہرائی اور ان کے پیغام کی وسعت کو سمجھنے کی صلاحیت کو مدھم کر دیا ہے، اور یہ ہماری تہذیبی روایت کے لیے ایک بڑا المیہ ہے۔
علامہ اقبال کی شاعری محض خوبصورت الفاظ کا مجموعہ نہیں، بلکہ یہ ایک ایسی ہمہ گیر تحریک ہے جو روح کو بیدار کرتی ہے اور ذہن کو معراج بخشتی ہے۔ ان کے اشعار نہ صرف زندگی کی نئی معنویت پیدا کرتے ہیں بلکہ فرد کو اس کی حقیقی مقصدیت سے روشناس کراتے ہیں۔ بدقسمتی سے آج کی نسل اپنی تہذیبی اور فکری وراثت سے ناواقفیت کے سبب اس قیمتی خزانے کو کھو رہی ہے۔ اقبال کے خیالات نہ صرف فکری بلندی کے حامل ہیں بلکہ زندگی کے ہر شعبے کے لیے رہنمائی فراہم کرتے ہیں۔ ان کے پیغام کو اس کی اصل لطافت، وسعت اور عظمت کے ساتھ نئی نسل تک پہنچانا ضروری ہے۔
یہ وقت کا تقاضا ہے کہ اردو زبان کو محض ایک ماضی کا ورثہ سمجھ کر نظر انداز نہ کیا جائے، بلکہ اسے ایک زندہ، متحرک اور تہذیبی وسیلہ کے طور پر فروغ دیا جائے۔ اردو ہماری ثقافت کی روح ہے، اور اسی زبان میں علامہ کا پیغام پنہاں ہے۔ اس پیغام کو زندہ رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ نوجوان نسل کو اردو سے وابستہ کیا جائے اور موصوف کے فکر و فلسفہ کو ان کے دل و دماغ میں بیدار کیا جائے، تاکہ وہ اپنی تہذیب اور تاریخ کے حقیقی وارث بن سکیں۔