
فقہ کی روشنی
✍️۔۔۔ محسن خان / اننت ناگ
راشد شاذ صاحب کا یہ موقف کہ "فقہی دین کا تصور ہمیں وحی کی تازگی سے محروم کر دیتا ہے" ایک ایسا دعویٰ ہے جو نہ صرف تاریخی سیاق و سباق سے ناآشنا ہے بلکہ اسلامی علمی روایت کی گہرائیوں سے بھی غافل نظر آتا ہے۔
فقہ دراصل شریعت کے عملی ارتسام کا نام ہے، جو قرآن و سنت کی روشنی میں انسانی زندگی کے مختلف گوشوں کو منور کرتا ہے۔ یہ نہ تو وحی کا نعم البدل ہے اور نہ ہی اس کا معارض؛ بلکہ یہ فہمِ وحی، تعبیرِ وحی اور تنزیلِ وحی (عملی اطلاق) کا ایک متین و معتبر منہج ہے۔
صحابہ کرام، تابعین عظام اور ائمہ مجتہدین کی فقہی مساعی دراصل اسی نورِ وحی کے انعکاسات تھے جنہوں نے شریعت کی حکمتوں کو زمان و مکان کے قالب میں ڈھالا۔ اس تناظر میں فقہ کو "وحی کی تازگی" کے منافی سمجھنا نہ صرف علمی سقم کی دلیل ہے بلکہ فکری سطحیت کا بھی مظہر ہے۔
جہاں تک امتِ مسلمہ میں انتشار کا تعلق ہے، تو ان کی جڑیں فقہ میں نہیں، بلکہ تعصباتِ شخصیہ، فکری جمود، تربیتی خلاء اور سیاسی مطامع و مفادات میں پیوست ہیں۔ فقہ تو درحقیقت انفرادی و اجتماعی حیات میں ہمیشہ سے نظم و نسق کا باعث رہی ہے۔
فقہی مذاہب جیسے حنفی، مالکی، شافعی اور حنبلی،اپنی اساس میں قرآن و سنت سے مربوط ہیں اور ایک دوسرے کو اہلِ قبلہ اور مسلمان تسلیم کرتے ہیں۔ ان کے درمیان موجود اجتہادی اختلافات، دراصل امت کے لیے فکری توسع، اجتہادی تنوع اور دینی سہولت کا ذریعہ ہیں، نہ کہ تعصب و تفریق کا۔ جیسا کہ معروف قول بھی ہے:
"اختلافُ أُمتي رحمة"
لہٰذا فقہ کو تنگ نظری، گروہ بندی یا عدم رواداری کی جڑ قرار دینا اسلامی فکر و تہذیب سے ناواقفیت اور علمِ دین کی روح سے تغافل کی علامت ہے۔