دین کا مطالعہ کیسے کیا جائے؟

دین کا مطالعہ کیسے کیا جائے؟

Last Updated: 1 week ago

شجاع مشتاق/اننت ناگ

 

محسن خان کی تصنیف "دین کا مطالعہ کیسے کیا جائے؟" ایک گہرے علمی اور فکری تجزیے پر مبنی کتاب ہے، جو نہ صرف مطالعہ کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے بلکہ اس کے عملی اصول اور آداب بھی واضح کرتی ہے۔ مصنف نے اس کتاب میں دین کے مطالعہ کے حوالے سے ایک منظم اور موثر طریقہ کار فراہم کیا ہے جو جدید دور کے قاری کو علمی ترقی کی راہ دکھاتا ہے۔

یہ کتاب اس امر پر زور دیتی ہے کہ مطالعہ صرف معلومات کے حصول کا ذریعہ نہیں بلکہ ایک فکری عمل ہے جو انسان کی سوچ اور تفکر کو جلا بخشتا ہے۔ مصنف نے تحریر کیا ہے: "اگر ہم بر وقت اپنے تخیلات کو قلم بند نہ کریں تو بہت کچھ ضائع ہونے کا خدشہ ہے۔" یہ قول اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ مطالعہ کا عمل تخلیقی قوت کو مہمیز دیتا ہے اور خیالات کو محفوظ رکھنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔

محسن خان نے کتاب میں مطالعہ کے مختلف مراحل، آداب اور منہج کا تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: "مطالعہ عقل کی ترقی اور فکری بالیدگی کے لیے اتنا ہی ضروری ہے جتنا پانی اور ہوا زندگی کے لیے۔" یہ بیان ہمیں اس حقیقت کی یاد دلاتا ہے کہ مطالعہ کا عمل انسانی زندگی کے ہر پہلو میں اثرانداز ہوتا ہے، اور اس کے بغیر علمی ترقی ممکن نہیں۔

مصنف نے کتاب کے مختلف ابواب میں مطالعہ کی اہمیت، موثر طریقے، اور اس کے عملی اصولوں پر گفتگو کی ہے۔ ایک باب میں وہ لکھتے ہیں: "علم کے حصول میں استاد کی صحبت انتہائی اہم ہے، کیونکہ استاد کی رہنمائی ہی علم کو مؤثر اور مفید بناتی ہے۔" اس بیان سے اندازہ ہوتا ہے کہ خود مطالعہ کے ساتھ ساتھ علمی رہنمائی کا ہونا بھی ناگزیر ہے۔

یہ کتاب جدید دور کے ان نوجوانوں کے لیے بھی ایک رہنما ثابت ہو سکتی ہے جو مطالعہ کے شوقین تو ہیں لیکن اس کے لیے موزوں طریقہ کار سے ناواقف ہیں۔ مصنف نے نوجوانوں کے اس مسئلے کو بیان کرتے ہوئے لکھا: "کتابیں خریدنا آسان ہے، لیکن ان کا بھرپور استفادہ کرنا ایک ہنر ہے جو ہر کسی کو نہیں آتا۔" اس اقتباس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ کتابیں اکٹھا کرنے سے زیادہ ضروری یہ جاننا ہے کہ ان سے کیسے علمی فائدہ اٹھایا جائے۔

مصنف نے نہ صرف دین کے مطالعہ کے حوالے سے رہنمائی دی ہے بلکہ مطالعہ کی عادت کو عملی طور پر اپنانے کے مختلف طریقے بھی پیش کیے ہیں۔ ایک جگہ وہ لکھتے ہیں: "ایک اچھی کتاب ہمیشہ اپنے قاری کو بہتر انسان بنانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔" یہ قول ہمیں یہ احساس دلاتا ہے کہ ایک معیاری مطالعہ فرد کی شخصیت اور کردار میں مثبت تبدیلیاں لا سکتا ہے۔

کتاب کا سب سے نمایاں پہلو یہ ہے کہ مصنف نے صرف نظری مباحث پر اکتفا نہیں کیا بلکہ عملی مثالوں اور تاریخی حوالوں سے بھی استفادہ کیا ہے۔ امام شافعی کا قول: "میں نے پچاس سال سے الرسالہ کا مطالعہ کیا، لیکن ہر دفعہ اس میں کچھ نیا سیکھا۔" اس حقیقت کو واضح کرتا ہے کہ مطالعہ ایک مسلسل عمل ہے جو ہمیشہ نئی راہیں کھولتا ہے۔

مصنف نے مطالعہ کے بنیادی اصولوں پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا: "سیکھنے کا عمل ایک طویل سفر ہے، جس میں ہر لمحہ ایک نئی چیز سیکھنے کا موقع ہوتا ہے۔" یہ بات ثابت کرتی ہے کہ علم کے متلاشی کو کبھی بھی سیکھنے سے گریز نہیں کرنا چاہیے، بلکہ ہر وقت اپنی علمی سطح کو بہتر بنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔

ایک اور اہم اقتباس میں مصنف فرماتے ہیں: "ایک موثر مطالعہ وہی ہے جو عمل میں ڈھل سکے، ورنہ محض پڑھنا وقت ضائع کرنے کے مترادف ہوگا۔" اس قول سے ظاہر ہوتا ہے کہ مطالعہ کا اصل مقصد صرف معلومات جمع کرنا نہیں بلکہ اس کا عملی اطلاق بھی ضروری ہے۔

محسن خان نے ایک جگہ لکھا ہے: "نوجوانوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ مطالعہ کو اپنا شعار بنائیں اور اس کے لیے مستقل مزاجی کو اپنائیں۔" اس بیان سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ علم کا حصول کسی ایک وقت کی سرگرمی نہیں بلکہ یہ ایک مستقل جدوجہد ہے جو صبر اور استقامت کا تقاضا کرتی ہے۔

یہ کتاب ان تمام قارئین کے لیے بے حد مفید ہے جو دین کا مطالعہ کرنا چاہتے ہیں لیکن انہیں نہیں معلوم کہ کہاں سے آغاز کریں۔ مصنف نے اس بارے میں رہنمائی دیتے ہوئے لکھا: "مطالعہ کے لیے پہلے سے ایک منظم منصوبہ بندی کرنا ضروری ہے، تاکہ قاری صحیح ترتیب کے ساتھ اپنی علمی ترقی کو یقینی بنا سکے۔"

کتاب کا ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ مصنف نے محض علمی مباحث پر اکتفا نہیں کیا بلکہ عملی تجاویز بھی فراہم کی ہیں۔ وہ لکھتے ہیں: "اگر ہم اپنی علمی صلاحیتوں کو ترقی دینا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے مطالعہ کے انداز میں تسلسل اور محنت کو شامل کرنا ہوگا۔" یہ بیان ایک عام قاری کو بھی علم کے راستے پر گامزن ہونے کی ترغیب دیتا ہے۔

مصنف نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ "مطالعہ کا سب سے اہم اصول یہ ہے کہ انسان اس علم کو دوسروں تک بھی پہنچائے، کیونکہ حقیقی علم وہی ہے جو بانٹا جائے۔" یہ قول ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ علم کو محض اپنی ذات تک محدود نہیں رکھنا چاہیے، بلکہ اسے دوسروں تک پہنچانے سے ہی اس کی اصل قدروقیمت میں اضافہ ہوتا ہے۔

مختصر یہ کہ محسن خان کی یہ تصنیف مطالعہ کی اہمیت، اس کے عملی اصولوں اور موثر طریقوں پر ایک جامع اور علمی دستاویز ہے۔ یہ کتاب ہر اس شخص کے لیے ایک قیمتی اثاثہ ہے جو علم کے حصول اور دین کے فہم میں سنجیدہ ہے۔ اس میں دی گئی تجاویز اور رہنما اصول نہ صرف دینی علوم کے طلبہ بلکہ ہر اس شخص کے لیے کارآمد ہیں جو مطالعہ کو اپنی علمی اور فکری ترقی کا ذریعہ بنانا چاہتا ہے۔