دل جو رسولﷺ کے بعد بھی ایک ساتھ دھڑکتے رہے

دل جو رسولﷺ کے بعد بھی ایک ساتھ دھڑکتے رہے

Last Updated: 2 hours ago

شجاع مشتاق

 

مدینہ کی فضا میں سکون کی ایک لہر دوڑ رہی تھی۔ مسجد نبوی کے منبر پر وہ ہستی جلوہ افروز تھی، جس نے غارِ ثور میں وفا کی لازوال مثال قائم کی تھی۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ، جن کے سامنے اب ایک ایسی امت تھی جو رسول اللہ ﷺ کے فراق کے بعد سہمی ہوئی تھی، اور جن کے دل میں صرف ایک ہی فکر موجزن تھی کہ دین کا کارواں بکھرنے نہ پائے۔ نبوت کے بعد امت کی قیادت کا عظیم فریضہ ان کے حصے میں آیا تھا، اور وہ اس ذمہ داری کو صرف ایک عہدہ نہیں، بلکہ ایک امانت سمجھ کر نبھا رہے تھے۔ ان کی نگاہ جب حضرت عمر، حضرت عثمان، اور حضرت علی پر پڑتی تو ان کے چہرے پر ایک عجیب سکون ابھرتا۔ وہ جانتے تھے کہ ان کے ساتھ کھڑے یہ رفیق ایسے ہیں جو وفا میں بے مثال، فہم و فراست میں روشن، اور اخلاص میں بے نظیر ہیں۔ ان کے ساتھ امت کی کشتی تند و تیز طوفانوں سے بھی گزر جائے گی، کیونکہ ان کی بنیاد محبت، مشورے، اور اللہ کی رضا پر ہے۔

محبت کبھی صرف لفظوں کی مرہونِ منت نہیں ہوتی، بلکہ وہ عمل، قربانی اور اعتماد کی زبان بولتی ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ، جنہیں بعض اوقات سخت گیر سمجھا جاتا ہے، دراصل حضرت ابوبکر کے سب سے بڑے خیرخواہ، مشیر اور رفیق تھے۔ جب مسیلمہ کذاب، اسود عنسی، اور دوسرے جھوٹے مدعیانِ نبوت کے خلاف لشکر روانہ کرنے کا وقت آیا، اور امت خوف میں مبتلا تھی، حضرت عمر کچھ لمحے ٹھٹکے۔ مگر جب حضرت ابوبکر نے اپنی پختہ آواز میں فرمایا: "اگر کتے بھی مدینہ کی گلیوں میں ہمیں نوچنے لگیں، تب بھی میں ان سے ضرور قتال کروں گا جنہوں نے زکوٰۃ روک لی ہے"، تو حضرت عمر کی آنکھوں میں صدیق کی جرات کے لیے عزت اور تسلیم کی چمک ابھری۔ ان کے دل نے گواہی دی کہ قیادت کا حق دار واقعی وہی ہے جس کا دل اللہ پر مکمل یقین رکھتا ہے۔

پھر منظر بدلا، اور وہی حضرت عمر خلیفہ بنے۔ ابوبکر کے وصال پر ان کے آنسوؤں نے وہ دکھ بیان کیا جو صرف ایک عاشقِ دین کا دل محسوس کر سکتا ہے۔ خلافت کا بار اٹھاتے ہی ان کی پہلی نگاہ جن چہروں کی طرف گئی، وہ علی، عثمان، اور باقی مشیرانِ رسول کے چہرے تھے۔ ان کی زبان پر پہلا جملہ آیا: "اگر علی نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہو جاتا۔" یہ کوئی مبالغہ نہیں تھا، بلکہ اس گہرے علمی تعلق اور باہمی اعتماد کا آئینہ تھا جو ان دونوں عظیم ہستیوں کے دلوں میں تھا۔

حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا ذکر آتے ہی فضا میں حیا، سخاوت، اور خاموش وقار بکھر جاتا ہے۔ وہ اپنے عمل سے محبت کا مظاہرہ کرتے۔ قحط کے دنوں میں جب ہر شخص ذخیرہ اندوزی کی فکر میں تھا، عثمان رضی اللہ عنہ نے اناج سے لدے قافلے کو مسجد نبوی کے دروازے پر روک کر کہا: "یہ سب اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے راستے میں ہے۔" حضرت عمر کے چہرے پر مسکراہٹ آئی، اور انہوں نے کہا: "عثمان! تم نے جنت خرید لی ہے۔" یہ وہ محبت تھی جس میں دنیا کا کوئی مفاد شامل نہ تھا۔ خلفاء آپس میں نہ فقط عقیدے میں یکجہتی رکھتے تھے بلکہ ایک دوسرے کی شخصیت کو دل سے قبول کرتے اور سراہتے بھی تھے۔

اور پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ۔ علم، شجاعت، اور تقویٰ کا وہ مینار، جس پر فخر کر کے امت صدیوں سے سر بلند رکھے ہوئے ہے۔ ان کا انداز خطابت ہو یا قضا کا فیصلہ، ہر مقام پر خلفاء راشدین ان سے رجوع کرتے، اور ان کے مشورے کو عزت بخشتے۔ حضرت عمر فرمایا کرتے تھے: "میرے لیے علی کا ہونا، میرے دل کے اطمینان کا سبب ہے۔" حضرت علی نے خود فرمایا: "ابوبکر اور عمر اس امت کے بہترین افراد ہیں۔" جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ کی نسبت ان سے کیا ہے؟ تو کہا: "میری محبت ان سے اللہ کے لیے ہے، اور ان کی فضیلت کا انکار صرف وہی کر سکتا ہے جو حق سے دور ہو۔"

حضرت علی کی خلافت کے دور میں جب فتنے نے سراٹھایا، اور نفاق کی چنگاریاں امت کے دامن کو جلا رہی تھیں، تو حضرت علی کی آنکھوں میں وہی پرانی یادیں روشن تھیں۔ حضرت عثمان کی شہادت پر ان کا دل کرب سے بھر گیا۔ انھوں نے فرمایا: "میں عثمان پر کسی سے کم غمزدہ نہیں ہوں، اور ان کے قاتلوں کے خلاف سب سے پہلے میرے ہاتھ حرکت کریں گے۔" ان کا دکھ کسی دنیاوی نقصان پر نہ تھا، بلکہ اس اخوت کے ٹوٹنے کا درد تھا جو انہوں نے رسول اللہ ﷺ کی صحبت میں پروان چڑھتے دیکھی تھی۔

یہ وہ محبتیں تھیں جو کتابوں میں لکھی جانے والی عبارتیں نہیں، بلکہ کرداروں کی زندگیوں میں سانس لینے والے اصول تھے۔ خلفائے راشدین نے نہ صرف ایک دوسرے سے مشورے لیے بلکہ اپنی اولادوں میں بھی وہی محبت منتقل کی۔ حضرت علی کے بیٹے محمد بن حنفیہ نے جب کہا: "ابوبکر اور عمر میرے والد سے افضل ہیں" تو یہ محض انکساری نہیں تھی، بلکہ حق کی گواہی تھی۔

آج جب امت میں بعض نادان لوگ ان عظیم ہستیوں کے بارے میں شکوک، تعصب یا فرقہ واریت کے نظریات پھیلاتے ہیں، تو دل کانپ اٹھتا ہے۔ اگر ان چاروں کا باہمی تعلق، محبت، فہم، اور ایثار آج ہمارے لیے مشعلِ راہ نہ بنے تو ہم ان کے نام کے وارث کیسے ہو سکتے ہیں؟ انہوں نے ایک دوسرے کو کبھی نیچا دکھانے کی کوشش نہیں کی، بلکہ اپنی زندگیوں کو دین کے لیے وقف کیا، اور باہم محبت و یگانگت سے اسلام کی وہ بنیادیں مضبوط کیں جن پر آج بھی امت قائم ہے۔

یہ فقط تاریخ نہیں، بلکہ ایک زندہ پیغام ہے۔ وہ پیغام جو ہمیں بتاتا ہے کہ اصل محبت وہی ہے جو اختلاف کے باوجود اخلاص سے بھری ہو، جو قیادت کے باوجود عاجزی سے جڑی ہو، اور جو دین کے لیے ہو، نہ کہ دنیا کے لیے۔ اگر ہم ان ہستیوں سے واقعی محبت رکھتے ہیں، تو ہمیں بھی وہی کردار، وہی حسنِ ظن، اور وہی وحدت اپنانی ہو گی، جو ان کے دلوں میں ایک دوسرے کے لیے تھی۔