
اسلامی گھرانے کی تعمیر: ایک ذمہ داری اور امانت
✍️۔۔۔ناظمہ رسول/ لیور پہلگام
اہلِ خانہ کی تربیت اسلامی زندگی کا ایک بنیادی جز ہے، جو معاشرے کی اصلاح اور فلاح کا ذریعہ بنتی ہے۔ اس تربیت کا اصل منبع قرآن و سنت ہے، اور اسلامی تاریخ میں ہمیں ایسے بہترین نمونے ملتے ہیں جو رہنمائی فراہم کرتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے اہلِ خانہ کی دینی تربیت کی ذمہ داری والدین اور گھر کے سربراہان پر عائد کی ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ خاندان کے افراد دنیا اور آخرت دونوں میں کامیابی حاصل کریں۔ دین کی بنیادی تعلیمات کو سمجھنا اور ان پر عمل کرنا ہر گھرانے کے لیے ضروری ہے، کیونکہ گھر ہی وہ پہلا مدرسہ ہے جہاں شخصیت کی بنیاد رکھی جاتی ہے۔ اگر والدین ابتدا ہی سے نیکی، عدل، تقویٰ اور ایمانی تربیت پر توجہ دیں، تو بچوں میں ایک مضبوط اسلامی شناخت پروان چڑھتی ہے۔
ماضی میں نیک لوگ اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دیتے تھے اور یہ کام کسی خاص عمر تک محدود نہیں ہوتا تھا، بلکہ بچپن سے لے کر جوانی تک مسلسل جاری رہتا تھا۔ وہ یہ سمجھتے تھے کہ بچہ جو کچھ دیکھتا اور سنتا ہے، وہی اس کی فطرت کا حصہ بن جاتا ہے۔ اس لیے وہ کوشش کرتے تھے کہ گھر کا ماحول ایسا ہو جہاں سچائی، نرمی، حلم، دیانت داری اور عبادت کا عملی مظاہرہ ہو۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا تھا کہ بچے خود بخود اچھے اخلاق اپنا لیتے اور دین پر عمل کرنا ان کے لیے فطری بن جاتا۔
جو لوگ بچوں کی صحیح تربیت نہیں کرتے، وہ درحقیقت ان کے ساتھ ناانصافی کرتے ہیں، کیونکہ بچپن میں جو عادات پختہ ہو جاتی ہیں، وہی بڑھاپے تک باقی رہتی ہیں۔ اسی لیے ضروری ہے کہ ابتدا سے ہی نیک رویوں کو اپنانے کی ترغیب دی جائے۔ تربیت کا یہ کام زبردستی سے نہیں بلکہ شفقت اور محبت کے ذریعے انجام دیا جائے، کیونکہ سختی بعض اوقات الٹا نقصان پہنچا دیتی ہے۔ والدین اگر خود دین پر عمل کریں گے اور اچھے اخلاق کا مظاہرہ کریں گے، تو بچے بھی انہی خوبیوں کو اپنائیں گے۔
ایسے لوگ جو گھر میں دینی ماحول پیدا کرنے کے لیے کوشاں رہتے ہیں، ان کے گھروں میں برکت ہوتی ہے اور ان کی نسلیں نیکوکار بنتی ہیں۔ تاریخ میں ہمیں ایسے کئی واقعات ملتے ہیں جن میں گھر کے سربراہان نے اپنے بچوں کو دین کی بنیادوں پر پروان چڑھایا اور ان کی اخلاقی تربیت کا خاص خیال رکھا۔ انہوں نے اس بات کو سمجھا کہ والدین کی سب سے بڑی ذمہ داری اپنے بچوں کے عقیدے اور اخلاق کی حفاظت کرنا ہے۔
بچوں کو علم اور عبادت کی طرف راغب کرنے کے لیے ضروری ہے کہ انہیں اچھے ماحول میں رکھا جائے۔ علمائے کرام اپنے بچوں کو ابتدا ہی سے علمی و دینی مجالس میں لے جاتے تاکہ وہ دین کے فہم میں پروان چڑھیں۔ اس کے علاوہ گھریلو زندگی میں دینی اقدار کو عملی طور پر نافذ کرنا بھی نہایت اہم ہے، جیسے وقت پر نماز کی ادائیگی، سچ بولنے کی تاکید، دوسروں کے ساتھ حسنِ سلوک اور صبر و تحمل کی تربیت۔
اہلِ خانہ کی تربیت میں صبر، حکمت اور مستقل مزاجی کی ضرورت ہوتی ہے۔ جو لوگ اپنے بچوں کو دین سکھانے میں دیر کر دیتے ہیں، وہ درحقیقت ان پر ظلم کرتے ہیں، کیونکہ ایک عمر کے بعد اصلاح مشکل ہو جاتی ہے۔ اسی لیے بچوں کی تربیت کے معاملے میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے، بلکہ ابتدا ہی سے اس پر محنت کرنی چاہیے۔
اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے گھروں میں سکون اور برکت ہو، تو ہمیں اپنی نسلوں کی تربیت پر خصوصی توجہ دینی ہوگی۔ یہ کام محض زبانی نصیحت سے نہیں بلکہ عمل کے ذریعے کیا جا سکتا ہے۔ جب گھر کے بڑے خود نیک عمل کریں گے، تو چھوٹے بھی ان کی پیروی کریں گے۔ یہی طریقہ انبیاء، صحابہ اور نیک لوگوں کا تھا، اور یہی آج بھی کامیاب اسلامی معاشرے کی بنیاد ہے۔