عقیدہ کی حفاظت: ماضی سے حال تک ایک تسلسل

عقیدہ کی حفاظت: ماضی سے حال تک ایک تسلسل

Last Updated: 1 week ago

✍️۔۔۔ شجاع مشتاق/ اننت ناگ

 

اسلام میں عقیدہ بنیادی ایمانیات اور اعتقادات کا مجموعہ ہے جو ایک مسلمان کے ایمان کی بنیاد رکھتا ہے۔ عربی زبان میں "عقیدہ" کا لفظ "عقد" سے نکلا ہے، جس کا مطلب ہے "گرہ باندھنا" یعنی ایسا پختہ یقین جو دل میں راسخ ہو جائے۔ اسلامی عقیدہ توحید، رسالت، آخرت، فرشتوں، الہامی کتابوں اور تقدیر پر ایمان جیسی بنیادی تعلیمات پر مشتمل ہے۔ یہی عقیدہ انسان کی زندگی میں نظریاتی اور عملی سمت متعین کرتا ہے اور آخرت میں کامیابی کا ذریعہ بنتا ہے۔

عقیدہ کی حفاظت ہمیشہ سے اسلامی تاریخ کا ایک اہم پہلو رہا ہے۔ جب بھی باطل نظریات یا الحادی افکار نے اسلامی عقیدہ پر حملہ کیا، تو سلف صالحین یعنی صحابہ کرام، تابعین اور تبع تابعین نے اس کا بھرپور دفاع کیا۔ ان بزرگوں نے نہ صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں عقیدہ کی وضاحت کی بلکہ عملی طور پر بھی باطل عقائد کے خلاف علمی اور فکری محاذ قائم کیا۔

سلف صالحین نے دفاعِ عقیدہ کے لیے مختلف طریقے اپنائے۔ سب سے پہلے، انہوں نے قرآن و سنت کی خالص تعلیمات کو عام کیا تاکہ لوگ اصل دین کو سمجھ سکیں اور کسی گمراہی میں مبتلا نہ ہوں۔ امام ابو حنیفہ، امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل جیسے عظیم فقہاء نے عقائد کی تشریح میں نمایاں خدمات انجام دیں اور اسلامی اصولوں پر کسی بھی قسم کی مداخلت کو رد کیا۔ اسی طرح، امام بخاری، امام مسلم اور دیگر محدثین نے صحیح احادیث کو جمع کر کے عقیدہ کی حفاظت کی تاکہ بعد میں پیدا ہونے والے فتنوں کا سدباب کیا جا سکے۔

جب عقیدہ پر فلسفیانہ اور کلامی حملے ہوئے، تو امام ابن تیمیہ، امام غزالی اور امام ابن قیم جیسے علماء نے علمی بنیادوں پر ان نظریات کا رد کیا۔ یونانی فلسفے اور معتزلی فکر کی مخالفت کرتے ہوئے، ان علماء نے اسلامی عقائد کو قرآن و سنت کی روشنی میں بیان کیا اور امت کو نظریاتی انتشار سے بچایا۔

سلف صالحین نے صرف علمی میدان میں ہی نہیں بلکہ عملی طور پر بھی عقیدہ کا دفاع کیا۔ صحابہ کرام نے دین کی سرحدوں کی حفاظت کے لیے جہاد کیا اور اسلامی نظریات کی پاسداری میں کسی بھی قسم کی مصلحت کو قبول نہیں کیا۔ تابعین اور تبع تابعین نے بھی اسی روش کو اپنایا اور حکمرانوں کے سامنے بھی حق گوئی کی روایت کو زندہ رکھا۔

دفاعِ عقیدہ میں ایک اور اہم پہلو بدعات کا رد تھا۔ ہر دور میں کچھ افراد نے دین میں نئی رسومات اور نظریات داخل کرنے کی کوشش کی، لیکن سلف صالحین نے ہمیشہ اس کا مقابلہ کیا۔ امام احمد بن حنبل نے خلقِ قرآن کے مسئلے پر شدید آزمائش کے باوجود اسلامی عقیدہ کا دفاع کیا اور کسی بھی قسم کی مداخلت کو قبول نہ کیا۔

یہی تسلسل آج بھی جاری ہے۔ دورِ حاضر میں، جب مختلف نظریاتی چیلنجز جیسے سیکولرازم، الحاد، اور جدید فکری تحریکیں اسلامی عقائد پر اثر انداز ہو رہی ہیں، تو علماء اور محققین اسی سلف و صالحین کے منہج پر چلتے ہوئے دین کی حفاظت کر رہے ہیں۔

عقیدہ کی حفاظت صرف علماء کی ذمہ داری نہیں بلکہ ہر مسلمان کا فرض ہے کہ وہ دین کی بنیادی تعلیمات کو سمجھے اور ان پر عمل کرے۔ اسلامی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جب بھی امت مسلمہ نے اپنے عقائد پر مضبوطی سے کاربند رہنے کی کوشش کی، تو دین کی عظمت برقرار رہی، اور جب بھی اس میں کمزوری آئی، امت اندرونی اور بیرونی فتنوں کا شکار ہوئی۔ لہٰذا، ہمیں بھی سلف صالحین کے طریقے کو اپنانا ہوگا اور اپنے عقیدہ کی حفاظت کے لیے علم، تحقیق، اور استقامت کو اپنا شعار بنانا ہوگا۔