
امت مسلمہ کی بدلتی صورتحال اور مغرب
شجاع مشتاق/ اننت ناگ کشمیر
امت مسلمہ کی موجودہ حالت ایک ایسے درخت کی مانند ہے جس کی جڑیں مضبوط تو ہیں، لیکن وقت اور حالات کی تیز ہواؤں نے اس کے پتوں کو کمزور کر دیا ہے۔ یہ ایک ایسی امت ہے جو کبھی علم، اخلاق، اور اتحاد کا نمونہ تھی، لیکن آج کئی چیلنجز کا سامنا کر رہی ہے۔ مغرب کی ترقی، ان کے خیالات اور اندازِ زندگی نے مسلمانوں کے ذہنوں پر گہرا اثر ڈالا ہے، اور یہ اثر مثبت بھی ہے اور منفی بھی۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
"وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا" (سورۃ آل عمران: 103)
(اور سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ نہ کرو۔)
امت مسلمہ کے اتحاد کو مضبوط کرنے کا پیغام قرآن میں واضح ہے، لیکن آج ہم دیکھتے ہیں کہ اختلافات نے مسلمانوں کو کمزور کر دیا ہے۔ مغرب نے تعلیم، تحقیق، اور جدید علوم میں ترقی کی اور ایک مضبوط معاشرتی نظام بنایا۔ مسلمانوں کو بھی چاہئے تھا کہ وہ قرآن اور سنت کی روشنی میں ترقی کی راہ اپناتے، لیکن بدقسمتی سے ہم پیچھے رہ گئے۔
مغرب کے ترقی یافتہ ہونے کی ایک بڑی وجہ ان کا علم سے لگاؤ اور عملیت پسندی ہے۔ لیکن کیا ہم مسلمانوں کو بھی یہی سبق نہیں دیا گیا تھا؟ قرآن کہتا ہے:
"اِقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ" (سورۃ العلق: 1)
(پڑھو اپنے رب کے نام کے ساتھ جس نے پیدا کیا۔)
اسلام نے ہمیشہ علم کو ترجیح دی ہے، لیکن آج کئی مسلمان ممالک میں تعلیم کی کمی، وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم، اور بدانتظامی کے باعث ہم پیچھے رہ گئے ہیں۔ مغرب نے ہمارے وسائل اور علم سے فائدہ اٹھایا، لیکن ہم نے اپنی میراث کو نظرانداز کر دیا۔
دوسری طرف مغرب کی ثقافت نے مسلمانوں کے طرزِ زندگی پر بھی گہرے اثرات ڈالے ہیں۔ کئی مسلمان نوجوان آج مغربی طرزِ زندگی کو اپنانے میں فخر محسوس کرتے ہیں، لیکن اس کے ساتھ اپنی دینی شناخت کھو رہے ہیں۔ یہ ایک خطرناک رجحان ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں دنیاوی زندگی میں میانہ روی اختیار کرنے کا حکم دیا ہے:
"وَابْتَغِ فِيمَا آتَاكَ اللَّهُ الدَّارَ الْآخِرَةَ وَلَا تَنسَ نَصِيبَكَ مِنَ الدُّنْيَا" (سورۃ القصص: 77)
(اور جو کچھ اللہ نے تجھے دیا ہے اس میں آخرت کا گھر طلب کر اور دنیا میں اپنا حصہ نہ بھول۔)
اس آیت سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ہمیں دنیاوی زندگی اور آخرت کے درمیان توازن رکھنا چاہئے۔ مغربی تہذیب سے سیکھنا برا نہیں، لیکن اپنی دینی اقدار کو چھوڑنا نقصان دہ ہو سکتا ہے۔
ہمیں اپنے بچوں کو قرآن اور سنت کی تعلیم دینی چاہئے، اور ساتھ ہی انہیں جدید تعلیم میں بھی آگے بڑھنے کے مواقع فراہم کرنے چاہئیں۔ امت مسلمہ کو متحد ہو کر ترقی کے لئے کام کرنا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے:
"إِنَّ اللَّهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا مَا بِأَنْفُسِهِمْ" (سورۃ الرعد: 11)
(بے شک اللہ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت نہ بدلیں۔)
لہٰذا، یہ ہمارے اوپر ہے کہ ہم خود کو بدلیں، اپنی سوچ اور عمل کو درست کریں، اور امت مسلمہ کو ایک بار پھر دنیا کے لئے ایک مثال بنائیں۔ ہمیں مغرب کی اچھی باتیں اپنانی چاہئیں، لیکن اپنی دینی اقدار کو کبھی نہیں چھوڑنا چاہئے۔
اگر ہم قرآن اور سنت کی تعلیمات پر عمل کریں گے اور جدید دنیا کے تقاضوں کو سمجھیں گے، تو ان شاءاللہ امت مسلمہ دوبارہ اپنی کھوئی ہوئی عظمت کو حاصل کر سکے گی۔ اللہ ہمیں اپنی دین پر چلنے اور ایک مضبوط امت بننے کی توفیق دے۔ آمین۔