
الرحيق المختوم
شجاع مشتاق/اننت ناگ
مطالعہ اور تحقیق کے شوق میں، میں نے مختلف سیرتِ نبویؐ پر مبنی کتب کا جائزہ لیا، جن میں سے الرحیق المختوم (از صفی الرحمن مبارک پوری) کا مطالعہ ایک منفرد علمی تجربہ ثابت ہوا۔ متعدد سیرت کی کتابوں کے مطالعے اور ان کے علمی معیار کو پرکھنے کے بعد، میں اس نتیجے پر پہنچا کہ اگر سیرتِ سرورِ عالم (از سید ابو الاعلیٰ مودودی) کے بعد کسی سیرتِ نبویؐ پر لکھی گئی کتاب نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا اور میرے علمی و فکری رجحان پر گہرا اثر چھوڑا، تو وہ الرحیق المختوم ہے۔
اس مطالعے کی تحریک میں میرے محترم استاد اور علمی رفیق، برادر محسن خان صاحب کی رہنمائی اور علمی ذوق نے نمایاں کردار ادا کیا۔ میں ان کے علمی احسانات کا اعتراف کرتے ہوئے، اس تجزیے کو ان کے نام منسوب کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ انہیں صحت و تندرستی، عمل کی توفیق اور کامیاب زندگی عطا فرمائے، اور ہم سب کو مزید علمی و تحقیقی جستجو کی توفیق بخشے۔
ذیل میں اس کتاب کا علمی تجزیہ پیش کیا جا رہا ہے۔
الرحيق المختوم شیخ صفی الرحمٰن مبارکپوری کی ایک بے مثال سیرتِ نبوی ﷺ پر مبنی کتاب ہے، جو سادہ مگر علمی انداز میں نبی کریم ﷺ کی حیاتِ طیبہ کو تفصیل سے بیان کرتی ہے۔ یہ کتاب محض تاریخی بیانات کا مجموعہ نہیں بلکہ ایک تحقیقی کاوش ہے، جو سیرت نگاری کے اصولوں پر پوری اترتی ہے۔ مصنف نے واقعات کو صرف بیان کرنے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ ان کے پس منظر اور نتائج پر بھی تفصیلی روشنی ڈالی ہے۔ ان کا اندازِ تحریر سادہ، دل نشین اور مستند حوالہ جات پر مبنی ہے، جس کی وجہ سے یہ کتاب نہ صرف علمی حلقوں میں مقبول ہوئی بلکہ عام قارئین کے لیے بھی آسان اور قابلِ فہم ثابت ہوئی۔
مصنف نے سیرتِ طیبہ کو ایک تحقیقی نظر سے دیکھا اور مستند کتبِ حدیث و تاریخ سے استفادہ کیا۔ وہ لکھتے ہیں: "لقد أجمع أهلُ السِّيَرِ والتَّاريخِ أنَّ النبيَّ ﷺ وُلِدَ يومَ الاثنينِ، في عامِ الفيلِ، في شهرِ ربيعٍ الأولِ، وذهب الجمهورُ إلى أنَّهُ في الثاني عشرَ من هذا الشهرِ الكريمِ." ان کے اسلوب کی خوبی یہ ہے کہ وہ ہر تاریخی واقعے کو بغیر کسی غیر مستند روایت کے بیان کرتے ہیں اور ہر بات کا حوالہ معتبر کتب سے دیتے ہیں۔ ان کی اس تحقیق کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ قاری کو ایک مربوط اور تحقیقی سیرت ملتی ہے، جس میں شبہات اور ضعیف روایات کی آمیزش نہیں۔
اس کتاب کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ مصنف نے سیرتِ نبوی ﷺ کو محض تاریخی واقعات کی ترتیب تک محدود نہیں رکھا بلکہ ان واقعات کے پس پردہ حکمتوں اور ان کے سماجی و اخلاقی اثرات پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ وہ لکھتے ہیں: "وكانت بعثته ﷺ رحمةً للعالمينَ، فقد أخرج اللهُ به الناسَ مِن الظلماتِ إلى النورِ، ومن الجهلِ إلى العلمِ، ومن الضلالِ إلى الهدايةِ." اس بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ سیرتِ نبوی ﷺ کو محض تاریخی تسلسل کے طور پر نہیں بلکہ ایک اصلاحی اور معاشرتی انقلاب کے تناظر میں دیکھتے ہیں، جس نے انسانی تاریخ کا رخ بدل کر رکھ دیا۔
یہ کتاب ایک ایسی سیرت نگاری کی مثال پیش کرتی ہے جو عقلی اور نقلی دلائل سے مزین ہے۔ مصنف نے جہاں نبی کریم ﷺ کی ذاتی زندگی کے پہلوؤں کو اجاگر کیا ہے، وہیں آپ کی دعوت، جہاد، صبر، اخلاق اور حکمت کو بھی بڑے متوازن انداز میں پیش کیا ہے۔ وہ نبی کریم ﷺ کی مکی زندگی کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: "وقد صبر رسولُ الله ﷺ وأصحابُهُ في مكّةَ صبرًا عظيماً، وأوذوا في سبيلِ اللهِ أشدَّ الإيذاءِ، فلم يَزِدْهم ذلك إلا إيمانًا وتسليمًا." یہ اس حقیقت کی جانب اشارہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی زندگی کا ہر پہلو ہمارے لیے نمونہ ہے اور اس میں دعوت و تبلیغ کی مشکلات سے لے کر ان کے حل تک، ہر چیز شامل ہے۔
مصنف نے کتاب میں تاریخی استناد کو ترجیح دی ہے اور روایات کی جانچ پڑتال میں انتہائی دقتِ نظر سے کام لیا ہے۔ وہ ہر واقعے کے پیچھے موجود روایات کو مختلف کتبِ سیرت اور حدیث کے حوالے سے پیش کرتے ہیں اور پھر اس پر تبصرہ بھی کرتے ہیں۔ ان کا اندازِ بیان خشک تحقیقی نہ ہو کر، دل نشین اور ادبی رنگ لیے ہوئے ہے۔ وہ جب نبی کریم ﷺ کی مدنی زندگی پر روشنی ڈالتے ہیں، تو وہاں بھی ترتیب اور توازن کو ملحوظ رکھتے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں: "وكانت المدينةُ دارَ الإسلامِ، فيها نزلتْ أحكامُ الجهادِ، وفيها تأسَّستِ الدولةُ الإسلاميةُ، ومنها انطلق نورُ الإسلامِ إلى العالمِ كلِّه." اس اقتباس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مصنف نے نہ صرف سیرت کے تاریخی پہلوؤں کو بیان کیا بلکہ اسلامی ریاست کے ارتقاء اور اس کے اثرات کو بھی نمایاں کیا۔
کتاب کا ایک اور نمایاں پہلو اس کی غیر جانبداری ہے۔ مصنف نے جہاں مستند روایات پر زور دیا، وہیں انہوں نے جذباتیت یا کسی خاص فرقے کی تائید و حمایت سے گریز کیا۔ انہوں نے نہایت متوازن انداز میں تمام واقعات کو اس طرح بیان کیا کہ قاری کو سیرتِ طیبہ کی اصل روح سے روشناس کرایا جا سکے۔ وہ نبی کریم ﷺ کے خطبات کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں: "وكان كلامُهُ ﷺ جامعًا، قليلَ الألفاظِ كثيرَ المعاني، يُؤثِّرُ في القلوبِ، ويُغيِّرُ مجرى الحياةِ." اس اقتباس سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم ﷺ کی دعوت کا اصل جوہر کیا تھا اور وہ کس طرح اپنے خطبات اور ارشادات سے لوگوں کی زندگیوں میں انقلاب برپا کرتے تھے۔
اس کتاب کی علمی و تحقیقی حیثیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ یہ سیرتِ نبوی ﷺ پر لکھی گئی چند ایسی کتب میں شامل ہے، جنہیں مستند اور تحقیقی سیرت نگاری میں شمار کیا جاتا ہے۔ مصنف نے ہر پہلو کو مکمل تحقیق کے ساتھ پیش کیا ہے اور روایات کی صحت پر خاص توجہ دی ہے۔ انہوں نے اپنی تحقیق میں کسی خاص نظریے یا مسلک کی طرف جھکاؤ نہیں رکھا بلکہ قرآن و سنت کی روشنی میں سیرتِ طیبہ کو بیان کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: "وكان خُلُقُهُ ﷺ القرآنَ، فقد كان يمشي بين الناسِ قرآنًا حيًّا، يُطبِّقُ تعاليمَهُ، ويُعلِّمُ الناسَ بأقوالِه وأفعالِه." اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مصنف نے سیرت کو کس گہرائی اور باریک بینی سے پیش کیا ہے اور نبی کریم ﷺ کے اخلاق کو کتابِ الٰہی کے عملی نمونے کے طور پر دکھایا ہے۔
یہ کتاب نہ صرف سیرتِ نبوی ﷺ کے واقعات کی ترتیب فراہم کرتی ہے بلکہ اس سے قاری کو نبی کریم ﷺ کی زندگی کے ہر پہلو کو سمجھنے کا موقع ملتا ہے۔ مصنف نے اپنی تحقیق میں ہر بات کو ثابت کرنے کے لیے روایات، احادیث، اور تاریخی شواہد کو بنیاد بنایا ہے اور کہیں بھی غیر مستند یا کمزور روایات کا سہارا نہیں لیا۔ ان کے اس علمی انداز کی وجہ سے یہ کتاب عام سیرت کی کتابوں سے ممتاز نظر آتی ہے۔
الرحيق المختوم کی مقبولیت کا ایک بڑا سبب اس کا سادہ مگر تحقیقی انداز ہے۔ یہ کتاب نہ صرف مسلمانوں کے لیے بلکہ غیر مسلم قارئین کے لیے بھی سیرتِ نبوی ﷺ کا ایک مستند ماخذ بن سکتی ہے۔ اس کی تحریر میں جو روانی، سادگی اور تحقیقی انداز پایا جاتا ہے، وہ اسے ایک غیر معمولی تصنیف بنا دیتا ہے۔ اس کتاب کا ایک اور خاص پہلو یہ ہے کہ مصنف نے صرف سیرتِ نبوی ﷺ پر ہی روشنی نہیں ڈالی بلکہ اسلامی تاریخ کے اس اہم دور کو بھی نمایاں کیا ہے جس میں رسول اللہ ﷺ نے لوگوں کو دینِ اسلام کی طرف بلایا اور ایک مثالی معاشرہ قائم کیا۔
یہ کتاب ایک ایسا نادر علمی خزانہ ہے جو سیرتِ نبوی ﷺ کو تحقیق، ادب، اور دل نشینی کے ساتھ پیش کرتی ہے۔ اس میں مستند تاریخی حوالہ جات، روایات کی جانچ پڑتال، اور سیرتِ نبوی ﷺ کے ہر پہلو کو بڑے متوازن انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ اس کے مطالعے سے قاری نہ صرف نبی کریم ﷺ کی زندگی کے ہر پہلو سے واقف ہوتا ہے بلکہ اس کے اندر دینِ اسلام کی حقیقی روح کو سمجھنے کی صلاحیت بھی پیدا ہوتی ہے۔ اس کی تحریر ایک ایسے منفرد اسلوب کی حامل ہے جو تحقیق اور ادب کا حسین امتزاج پیش کرتی ہے۔