
اختلافِ امت: رحمت یا نزاع کا ذریعہ؟
شجاع مشتاق/اننت ناگ
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ وَالصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ عَلٰى رَسُولِ اللّٰهِ وَعَلٰى آلِهِ وَأَصْحَابِهِ أَجْمَعِينَ
اختلاف امت کے لیے رحمت تھا، کیونکہ یہ علمی ترقی، فکری وسعت اور اجتہادی طرزِ فکر کو فروغ دینے کا ذریعہ بنتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب امت میں مختلف آراء اور نقطہ ہائے نظر کو علمی طور پر سمجھنے اور برداشت کرنے کا رجحان رہا، تو اسلامی تہذیب نے ہر میدان میں ترقی کی۔ صحابہ کرامؓ، تابعین اور ائمہ مجتہدین کے درمیان کئی مسائل میں اختلاف پایا جاتا تھا، لیکن ان کا بنیادی مقصد دین کی حقیقی روح کو سمجھنا اور امت کو صحیح سمت میں رہنمائی فراہم کرنا تھا۔ ان اختلافات کے باوجود ان کے درمیان محبت، رواداری اور باہمی احترام کی فضا قائم رہی۔ علمی مجالس میں اختلافات ہوتے، مگر ان کا انداز تعمیری ہوتا، جس سے دین کی بہتر تفہیم ممکن ہوتی۔
تاہم، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بعض عناصر نے ان علمی اختلافات کو مناظرات اور باہمی نزاع کا ذریعہ بنا لیا۔ یہ مناظرات علمی بحث و تمحیص سے زیادہ فرقہ وارانہ تعصب اور گروہی مفادات کی عکاسی کرنے لگے۔ دین کی خدمت اور امت کی اصلاح کے بجائے، ان مناظرات کا مقصد ایک دوسرے کو غلط ثابت کرنا، بعض اوقات کفر و شرک جیسے سنگین الزامات عائد کرنا، اور اپنی برتری کو ثابت کرنا بن گیا۔ اس طرزِ عمل نے علمی ترقی کو روک دیا اور امت میں فکری جمود پیدا کر دیا۔ جس اختلاف کو رحمت سمجھا جانا چاہیے تھا، اسے تفرقہ اور انتشار کا ذریعہ بنا دیا گیا۔
یہ رویہ نہ صرف علمی میدان میں نقصان دہ ہے بلکہ امت کی اجتماعی وحدت کے لیے بھی خطرناک ثابت ہو رہا ہے۔ جب اختلافات کو مثبت انداز میں لیا جائے، تو یہ اجتہاد اور تحقیق کی راہ ہموار کرتے ہیں، مگر جب ان کا استعمال ایک دوسرے کے خلاف نفرت اور الزام تراشی کے لیے کیا جائے، تو اس سے امت میں بدگمانی، تقسیم اور شدت پسندی جنم لیتی ہے۔ اسلامی تاریخ میں ایسے کئی واقعات ملتے ہیں جہاں مختلف فقہی مکاتبِ فکر کے علماء نے اختلافات کے باوجود ایک دوسرے کا احترام کیا اور ان کی آراء کو علمی دلائل کے ساتھ سمجھنے کی کوشش کی۔ مگر آج کے دور میں علمی مکالمے کی جگہ الزام تراشی نے لے لی ہے، جس سے امت مزید انتشار کا شکار ہو رہی ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ اختلافات کو علمی بنیادوں پر سمجھنے اور ان کے ذریعے فکری وسعت پیدا کرنے کی روش اپنائی جائے۔ ہر نقطہ نظر کو علمی تحقیق کی روشنی میں پرکھنے اور ایک دوسرے کے خیالات کو برداشت کرنے کی عادت پیدا کی جائے۔ امت کو فروعی مسائل میں الجھانے کے بجائے ان بنیادی نکات پر توجہ دی جائے جو ہمیں متحد کر سکتے ہیں۔ اگر علماء اور مذہبی شخصیات اپنی ذمہ داری کو سمجھیں اور دین کے حقیقی پیغام کو عام کرنے میں اپنا کردار ادا کریں، تو امت میں انتشار کے بجائے وحدت اور ہم آہنگی کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔