
عصرِ حاضر میں اسلامیات
✍️۔۔۔شجاع مشتاق / اننت ناگ
اسلامیات ایک ایسا مضمون ہے جسے صرف نوکری کے حصول یا معاشی فائدے کے لیے پڑھنا اس کے اصل مقصد کے ساتھ ناانصافی ہے۔ یہ علم دراصل انسان کی فکری بالیدگی، روحانی ارتقا، اور معاشرتی بصیرت کو جلا بخشنے کا ذریعہ ہے۔ اگر ہم اسلام کو ایک زندہ، ہمہ جہت اور ہمہ وقتی پیغام سمجھیں تو ہمیں اس کی تعلیم کو محض ماضی کی وراثت کے طور پر نہیں، بلکہ حال کے چیلنجز کے تناظر میں سمجھنے اور برتنے کی ضرورت ہے۔ عصرِ حاضر میں سائنسی، فکری، اور تہذیبی سطح پر جو سوالات اٹھائے جا رہے ہیں، ان کا جواب صرف وہی دینی علم دے سکتا ہے جو روایتی بنیادوں پر قائم ہو لیکن جدید اسلوبِ بیان اور فکری سانچے میں ڈھلا ہوا ہو۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ امت کے دانشور اور فکری طبقات مل بیٹھ کر ایسے اسلامیاتی مضامین تیار کریں جو جدید ذہن کو نہ صرف مطمئن کریں بلکہ اس کی رہنمائی بھی کر سکیں۔ ہر دور کا ایک خاص اندازِ اظہار اور فہم کا پیمانہ ہوتا ہے۔ اگر ہم دین کی اصل روح کو محفوظ رکھتے ہوئے عصرِ جدید کی زبان میں بات نہ کریں تو ہماری باتیں نئی نسل کے لیے اجنبی ہو جائیں گی۔ علمِ دین کو سمجھنے اور سیکھنے کا مقصد محض دلائل سیکھ کر دوسروں سے مناظرے کرنا نہیں ہونا چاہیے، بلکہ اس کا مقصد ایک ایسا داخلی اور خارجی شعور پیدا کرنا ہے جو انسان کو اخلاقی، فکری، اور عملی سطح پر بہتر بنائے۔
آج کے نوجوان جس فکری انتشار کا شکار ہیں، اس کی ایک بڑی وجہ ان کی تعلیم کا محدود دائرہ ہے۔ ان کی فکری تربیت زیادہ تر مخصوص عقائد کے دفاع تک محدود رہتی ہے، اور ان کے لیے دین کو سمجھنے کا دروازہ صرف ان دلائل تک کھولا جاتا ہے جو دوسروں کو مطمئن کرنے کے لیے کافی ہوں، خود کو سنوارنے کے لیے نہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ نوجوان مناظرانہ رویوں کو علمی کامیابی سمجھنے لگتے ہیں، اور ان کے اندر گہرائی، تحمل، اور بصیرت پیدا نہیں ہو پاتی۔
دوسری طرف، امتِ مسلمہ کی عمومی حالت بھی فکر انگیز ہے۔ ہم فرقہ واریت، باہمی نزاع، اور فکری جمود کا شکار ہیں، اور افسوس ناک امر یہ ہے کہ ہمارے علمی و فکری حلقے اب بھی زیادہ تر اسی بحث میں الجھے رہتے ہیں کہ کون مسلمان ہے اور کون نہیں۔ اس طرزِ فکر نے ہمیں ان حقیقی مسائل سے غافل کر دیا ہے جن کا تعلق امت کی اجتماعی بقا، فکری آزادی، اور اخلاقی زوال سے ہے۔
وقت کا تقاضا ہے کہ ہم علمی وسعت، فکری رواداری، اور باہمی مکالمے کو فروغ دیں۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ دین نوجوانوں کے دلوں میں جگہ بنائے اور ان کی عملی زندگی پر اثر انداز ہو، تو ہمیں اسے صرف "رٹنے" کا علم نہیں بلکہ "سمجھنے" اور "جینے" کا علم بنانا ہوگا۔ یہی وہ راستہ ہے جو دین کو محض نصاب سے نکال کر زندگی کا دستور بنا سکتا ہے، اور یہی شعور امت کو زوال سے نکال کر بیداری کی طرف لے جائے گا۔