علم دین کا حصول اور اس کے بنیادی مصادر

علم دین کا حصول اور اس کے بنیادی مصادر

Last Updated: 1 week ago

✍️۔۔۔ شجاع مشتاق/اننت ناگ

 

علم (Ilm) کی جستجو ایک ایسا مقدس عمل ہے جسے اسلام میں غیرمعمولی اہمیت حاصل ہے۔ دینِ اسلام کی بنیاد ہی علم پر قائم ہے، اور انسان کی نجات، اس کے عقائد و اعمال کی درستی اور دنیا و آخرت کی فلاح علم ہی سے مشروط ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے بارہا علم حاصل کرنے کی ترغیب دی ہے اور اہلِ علم کو عظیم مقام عطا فرمایا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی علم کے حصول کو ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض قرار دیا ہے۔

علم کی جستجو کا آغاز نیت کی درستی سے ہوتا ہے۔ دین کا علم وہی شخص حاصل کر سکتا ہے جو اخلاص نیت کے ساتھ اللہ کی رضا کے لیے علم کے میدان میں قدم رکھے۔ علم کی تلاش کوئی عام سرگرمی نہیں بلکہ ایک عبادت ہے جو انسان کو رب کے قریب کر دیتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ان لوگوں کی تعریف کی ہے جو غور و فکر کرتے ہیں، تدبر سے کام لیتے ہیں اور علم کی روشنی میں حق کو پہچانتے ہیں۔

دینِ اسلام کی بنیاد اللہ کی وحی پر ہے، اور اس وحی کے بنیادی دو مصادر ہیں: قرآن اور سنت۔ قرآن، اللہ کا کلام ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا اور قیامت تک تمام انسانوں کے لیے ہدایت کا ذریعہ ہے۔ اس میں اللہ کے احکام، دنیا و آخرت کی حقیقتیں، اخلاقی اصول، عبادات کے ضابطے، معاشرتی زندگی کے اصول، اور روحانی ترقی کے ذرائع بیان کیے گئے ہیں۔ قرآن کو سمجھنا اور اس پر عمل کرنا ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کو غور و فکر اور تدبر کے لیے نازل کیا ہے اور فرمایا ہے کہ اس میں ہر چیز کو کھول کر بیان کر دیا گیا ہے۔

دوسرا بنیادی ماخذ سنتِ نبوی ہے، جو قرآن کی عملی تفسیر ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر قول، عمل اور تقریر دین کے فہم کے لیے بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ سنت، وحی کی تشریح کرتی ہے اور اسے عملی زندگی میں نافذ کرنے کا طریقہ سکھاتی ہے۔ حدیث کی معتبر کتب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین، اعمال اور آپ کے صحابہ کرام کے سوالات کے جوابات محفوظ ہیں، جن کی بنیاد پر مسلمان اپنے دین کو بہتر طریقے سے سمجھ سکتے ہیں۔

قرآن اور سنت کے علاوہ دیگر اہم ذرائع میں اجماع، قیاس اور سلف صالحین کے اقوال شامل ہیں۔ اجماع امت کا وہ اتفاق رائے ہے جو کسی مسئلے پر امت کے علماء کے درمیان قائم ہوتا ہے۔ یہ دین میں استحکام اور یکجہتی کی علامت ہے اور اسلامی احکام کی تشریح میں ایک معتبر اصول کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔ قیاس، قرآن و سنت کے عمومی اصولوں کی روشنی میں کسی نئے پیش آمدہ مسئلے پر اجتہادی فیصلہ کرنے کا نام ہے۔

علمائے امت نے ہمیشہ قرآن و سنت کو بنیاد بنا کر علم کو آگے بڑھایا ہے۔ اسلامی تاریخ میں بڑے بڑے مجتہدین، مفسرین، محدثین اور فقہاء نے امت کی رہنمائی کے لیے گراں قدر علمی خدمات انجام دی ہیں۔ امام ابوحنیفہ، امام مالک، امام شافعی، امام احمد بن حنبل، امام بخاری، امام مسلم، امام غزالی، اور ابن تیمیہ جیسے اہلِ علم نے دین کی تعبیر و تشریح میں غیرمعمولی خدمات سرانجام دیں۔ ان کی کتابیں آج بھی دینی تعلیم کا ایک مستند ذریعہ سمجھی جاتی ہیں۔

علم کے حصول کے لیے صحیح طریقہ کار اپنانا ضروری ہے۔ سب سے پہلے قرآن کو صحیح طریقے سے پڑھنے، سمجھنے اور اس پر غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔ قرآن کے ساتھ ساتھ احادیث کا مطالعہ بھی نہایت اہم ہے کیونکہ یہ دین کی عملی رہنمائی فراہم کرتی ہیں۔ پھر فقہ، سیرت، تاریخ اور تفسیر کی کتابوں کا مطالعہ ایک طالب علم کو دینی بصیرت عطا کرتا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ انسان معتبر علماء سے رہنمائی حاصل کرے اور کسی ایک خاص مسلک یا نقطہ نظر میں تعصب اختیار کرنے کے بجائے وسیع النظری اور تحقیق کے اصولوں کو اپنائے۔

علم کے حصول میں ادب و احترام اور اخلاقیات کا بھی اہم کردار ہے۔ علم، عاجزی اور انکساری کے ساتھ سیکھا جاتا ہے۔ جو شخص علم کو تکبر، شہرت یا دنیاوی مفادات کے لیے حاصل کرتا ہے، وہ دین کے حقیقی فہم سے محروم رہ جاتا ہے۔ صحابہ کرام اور تابعین کا طرزِ عمل اس بات کی بہترین مثال ہے کہ انہوں نے علم کو اپنی زندگی کا مقصد بنایا اور اسے محض زبانی جمع خرچ کے بجائے عمل کا ذریعہ بنایا۔

اسلامی معاشرے میں علم کا فروغ صرف مدارس اور جامعات تک محدود نہیں بلکہ ہر فرد کی ذمہ داری ہے کہ وہ علم حاصل کرے اور دوسروں تک پہنچائے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بہترین انسان وہ ہے جو قرآن سیکھے اور سکھائے۔ یہ اصول صرف قرآن تک محدود نہیں بلکہ ہر اس علم پر لاگو ہوتا ہے جو دین کی خدمت اور معاشرتی بہتری میں معاون ہو۔

علم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اس پر عمل کرنا سب سے زیادہ اہم ہے۔ علم بغیر عمل کے بیکار ہو جاتا ہے، بلکہ بعض اوقات علم کے باوجود عمل نہ کرنا گمراہی اور ہلاکت کا سبب بن جاتا ہے۔ قرآن نے بنی اسرائیل کے ان لوگوں کی مذمت کی جو علم رکھنے کے باوجود اس پر عمل نہیں کرتے تھے۔ لہٰذا علم کے ساتھ تقویٰ، اخلاص، اور نیت کی درستی لازم ہے تاکہ انسان اس علم سے خود بھی فائدہ اٹھائے اور دوسروں کے لیے بھی مفید بنے۔

آج کے دور میں علم کے ذرائع بے حد وسیع ہو چکے ہیں۔ کتابوں، دروس، آن لائن لیکچرز، اسلامی یونیورسٹیوں اور مفت آن لائن کورسز کے ذریعے دینی تعلیم حاصل کی جا سکتی ہے۔ تاہم، اس میں محتاط رہنے کی ضرورت ہے کہ انسان مستند ذرائع ہی سے علم حاصل کرے اور غیرمعتبر یا گمراہ کن نظریات سے بچے۔

اختتامیہ کے طور پر یہ کہنا بجا ہوگا کہ علم دین کا حصول ایک عظیم عبادت اور سعادت ہے۔ جو شخص خلوصِ نیت سے علم کے راستے پر چلتا ہے، اللہ اس کے لیے جنت کا راستہ آسان کر دیتا ہے۔ قرآن اور سنت کے ذریعے ہدایت حاصل کرنا، علمائے کرام سے سیکھنا، کتابوں کا مطالعہ کرنا، غور و فکر اور تدبر سے کام لینا، اور حاصل شدہ علم پر عمل کرنا وہ بنیادی اصول ہیں جن پر عمل کر کے ایک مسلمان اپنے دین کو بہتر طریقے سے سمجھ سکتا ہے اور دنیا و آخرت میں کامیاب ہو سکتا ہے۔