
عالم اور واعظ کا فرق
✍️۔۔۔ شجاع مشتاق/اننت ناگ
یہ مضمون استاذ سہیل شوقین کی ایک فیس بک پوسٹ سے متاثر ہو کر تحریر کیا گیا ہے۔ متعدد اہلِ علم وقتاً فوقتاً فیس بک اور دیگر ذرائع کے ذریعے علمی و فکری رہنمائی فراہم کرتے ہیں، جو ہمارے لیے باعثِ استفادہ ہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں مزید علم و بصیرت عطا فرمائے اور دنیا و آخرت میں کامیابی و سعادت سے نوازے۔ آمین
اللہ تعالیٰ نے انسان کی ہدایت کے لیے علم کو بنیادی وسیلہ بنایا اور اس علم کے وارث انبیاء علیہم السلام کے بعد علماء کو قرار دیا۔ قرآن و حدیث میں علماء کی فضیلت اور ان کی ذمہ داریوں کا جو تذکرہ آیا ہے، وہ محض خطابت یا وعظ گوئی پر نہیں بلکہ گہرے فہم و بصیرت اور علمی گہرائی پر مبنی ہے۔ عالم وہ ہوتا ہے جو دین کی باریکیوں کو سمجھ کر ان پر گہرا غور و فکر کرے، جبکہ واعظ کا دائرہ کار عمومی نصیحت اور ترغیب و ترہیب تک محدود ہوتا ہے۔ ان دونوں کے درمیان فرق کو نہ سمجھنا علمی انحطاط کی ایک بڑی وجہ بن سکتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ (فاطر: 28) یعنی اللہ سے ڈرنے والے تو بس علماء ہی ہوتے ہیں۔ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ عالم وہ ہوتا ہے جو اللہ کی خشیت رکھتا ہے، اور یہ خشیت تب ہی آتی ہے جب انسان کو دین کا گہرا ادراک ہو۔ اس کے برعکس، محض خطیبانہ جوش و ولولہ یا وعظ کی مہارت، علم کا معیار نہیں ہو سکتی۔
سلف صالحین نے علم اور وعظ کے فرق کو بہت واضح کیا ہے۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں: الناس أحوج إلى العلم من حاجتهم إلى الطعام والشراب، لأن الطعام والشراب يحتاج إليه في اليوم مرتين، والعلم يحتاج إليه في كل وقت یعنی لوگ علم کے زیادہ محتاج ہیں بنسبت کھانے پینے کے، کیونکہ کھانے پینے کی ضرورت دن میں دو مرتبہ ہوتی ہے، جبکہ علم کی ضرورت ہر وقت ہوتی ہے۔ اس قول سے ظاہر ہوتا ہے کہ محض جذباتی تقاریر سے زیادہ اہمیت علم کی ہوتی ہے۔
امام ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: العلم قال الله قال رسوله، والواعظ لا يتجاوز الترغيب والترهيب یعنی علم وہ ہے جس میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہو، جبکہ واعظ صرف ترغیب و ترہیب پر زور دیتا ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ خطیب یا واعظ محض دینی جذبات کو ابھارنے کا کام کرتا ہے، جبکہ عالم کی ذمہ داری ہے کہ وہ دین کو اس کی اصل روح کے ساتھ پیش کرے، دلائل و براہین سے مزین کرے اور مسائل کے حل پیش کرے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی واضح فرمایا کہ قیامت سے پہلے علم اٹھا لیا جائے گا۔ حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: إِنَّ اللَّهَ لَا يَقْبِضُ الْعِلْمَ انْتِزَاعًا يَنْتَزِعُهُ مِنَ الْعِبَادِ، وَلَكِنْ يَقْبِضُ الْعِلْمَ بِقَبْضِ الْعُلَمَاءِ، حَتَّى إِذَا لَمْ يُبْقِ عَالِمًا، اتَّخَذَ النَّاسُ رُءُوسًا جُهَّالًا، فَسُئِلُوا فَأَفْتَوْا بِغَيْرِ عِلْمٍ، فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا (بخاری و مسلم) یعنی اللہ تعالیٰ علم کو بندوں سے چھین کر نہیں اٹھائے گا بلکہ علم کو علماء کی وفات کے ذریعے اٹھائے گا، یہاں تک کہ جب کوئی عالم باقی نہیں رہے گا تو لوگ جاہلوں کو اپنا راہنما بنا لیں گے، پھر ان سے سوال کیے جائیں گے، اور وہ بغیر علم کے فتویٰ دیں گے، پس وہ خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے۔
یہ حدیث واضح کرتی ہے کہ جب علمی قیادت کمزور ہو جائے گی اور لوگ صرف خطیبوں اور واعظوں کو عالم سمجھنے لگیں گے، تو نتیجہ گمراہی اور بے راہ روی کی صورت میں نکلے گا۔ آج کے دور میں ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سے واعظین، جو محض جذباتی تقاریر کرنے میں مہارت رکھتے ہیں، علمی بنیادوں پر مسائل کا حل پیش نہیں کر پاتے۔ یہ چیز معاشرے میں علمی سطح کو کمزور کر رہی ہے اور دین کو صرف سطحی جذباتی پہلو تک محدود کر دیا گیا ہے۔
امام شاطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: العالم يضع المسائل على قواعدها، والواعظ يحفز الناس بالعاطفة یعنی عالم مسائل کو علمی اصولوں پر استوار کرتا ہے، جبکہ واعظ محض لوگوں کے جذبات کو ابھارتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ عالم دین میں پیش آنے والے ہر مسئلے کو علمی دلائل کے ساتھ سمجھتا اور پیش کرتا ہے، جبکہ واعظ کا دائرہ جذباتی خطابت تک محدود ہوتا ہے۔
اسلامی تاریخ میں بھی یہ واضح فرق نظر آتا ہے۔ امام ابوحنیفہ، امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ جیسے جید علماء نے امت کو علم کی روشنی سے منور کیا، جبکہ ان کے زمانے میں بھی بہت سے واعظین موجود تھے جو محض تقاریر کرتے تھے لیکن علمی گہرائی نہیں رکھتے تھے۔
یہی وجہ ہے کہ علماء کی پہچان، علمی دلائل، تحقیق اور گہرے فہم و بصیرت سے ہوتی ہے نہ کہ محض خطابت سے۔ امام ذھبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ليس كل من تكلم في الدين عالما، فقد يكون خطيبا بليغا وليس بفقيه یعنی ہر وہ شخص جو دین کے بارے میں گفتگو کرے، عالم نہیں ہوتا، وہ فصیح و بلیغ خطیب تو ہو سکتا ہے لیکن فقیہ نہیں ہو سکتا۔
اس ساری بحث کے بعد یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ خطیب اور عالم میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ خطیب یا واعظ کا کام صرف ترغیب و ترہیب ہوتا ہے جبکہ عالم دین کی گہری تفہیم، مسائل کا علمی حل اور دین کی اصل روح کو سمجھنے اور سمجھانے کا فریضہ انجام دیتا ہے۔ واعظین کا ادب و احترام اپنی جگہ، مگر انہیں علماء کے درجے پر رکھنا علمی دیانت داری کے خلاف ہوگا۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ خطباء اور واعظین کی تقاریر سننے کے ساتھ ساتھ حقیقی علم کی طلب میں رہیں اور علماء سے رجوع کریں تاکہ دین کی صحیح تفہیم حاصل ہو۔
________________________________________________________
حوالہ جات
١ : اللہ تعالیٰ نے فرمایا: إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ (فاطر: 28) یعنی اللہ سے ڈرنے والے تو بس علماء ہی ہوتے ہیں۔ (القرآن، سورۃ فاطر: 28)
٢: امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "الناس أحوج إلى العلم من حاجتهم إلى الطعام والشراب، لأن الطعام والشراب يحتاج إليه في اليوم مرتين، والعلم يحتاج إليه في كل وقت" (الجامع لأخلاق الراوي وآداب السامع، الخطيب البغدادي، 1/106) یعنی لوگ علم کے زیادہ محتاج ہیں بنسبت کھانے پینے کے، کیونکہ کھانے پینے کی ضرورت دن میں دو مرتبہ ہوتی ہے، جبکہ علم کی ضرورت ہر وقت ہوتی ہے۔
٣: امام ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "العلم قال الله قال رسوله، والواعظ لا يتجاوز الترغيب والترهيب" (مدارج السالكين، ابن القيم، 1/495) یعنی علم وہ ہے جس میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہو، جبکہ واعظ صرف ترغیب و ترہیب پر زور دیتا ہے۔
٤: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "إِنَّ اللَّهَ لَا يَقْبِضُ الْعِلْمَ انْتِزَاعًا يَنْتَزِعُهُ مِنَ الْعِبَادِ، وَلَكِنْ يَقْبِضُ الْعِلْمَ بِقَبْضِ الْعُلَمَاءِ، حَتَّى إِذَا لَمْ يُبْقِ عَالِمًا، اتَّخَذَ النَّاسُ رُءُوسًا جُهَّالًا، فَسُئِلُوا فَأَفْتَوْا بِغَيْرِ عِلْمٍ، فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا" (صحیح البخاری: 100، صحیح مسلم: 2673) یعنی اللہ تعالیٰ علم کو بندوں سے چھین کر نہیں اٹھائے گا بلکہ علم کو علماء کی وفات کے ذریعے اٹھائے گا، یہاں تک کہ جب کوئی عالم باقی نہیں رہے گا تو لوگ جاہلوں کو اپنا راہنما بنا لیں گے، پھر ان سے سوال کیے جائیں گے، اور وہ بغیر علم کے فتویٰ دیں گے، پس وہ خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے۔
٥: امام شاطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "العالم يضع المسائل على قواعدها، والواعظ يحفز الناس بالعاطفة" (الموافقات، الشاطبي، 5/152) یعنی عالم مسائل کو علمی اصولوں پر استوار کرتا ہے، جبکہ واعظ محض لوگوں کے جذبات کو ابھارتا ہے۔
٦: امام ذھبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "ليس كل من تكلم في الدين عالما، فقد يكون خطيبا بليغا وليس بفقيه" (سير أعلام النبلاء، الذهبي، 7/152) یعنی ہر وہ شخص جو دین کے بارے میں گفتگو کرے، عالم نہیں ہوتا، وہ فصیح و بلیغ خطیب تو ہو سکتا ہے لیکن فقیہ نہیں ہو سکتا۔